نا فرمان غیر خدمت گذار بیوی کو طلاق دیدے، تو طلاق بھی نہیں دیتا، آپ ذرا اِسے سمجھائیے، کہ وہ اپنی بیوی کو ہماری خدمت وطاعت کی تاکید کرے۔
(۵) مفتی حامد صاحب ( بیٹے سے مخاطب ہوکر):
بیٹاعاقب !… ذرا اپنی ہوم منسٹر(HOME MINISTER)بیگم صاحبہ کو تاکید کرے، کہ وہ اپنے خسر اور خوش دامن کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھا برتاؤ کرے،کیوں کہ کل کو تم دونوں بھی کسی کے خسر اور خوش دامن بنوگے۔
مفتی صاحب خسر سے مخاطب ہوکر: عابد صاحب!
اگر آپ دونوں میاں بیوی اپنی بہو کو، اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے، تو اس طرح کی شکایات کبھی بھی آپ کی زبان سے نہ نکلتیں، آج ہر گھر میں ساس بہو، اور خسر بہو کے درمیان بس اسی وجہ سے جھگڑا اور شکوہ ہے کہ ہماری بہو ہمار ا کہا نہیں مانتی ، ہماری خدمت نہیں کرتی، یہ سب شکوے شریعت سے ناواقفیت اور جہالت کی بنا پر ہیں،کیوں کہ ساس سسر کی خدمت اور طاعت بہو پر واجب اور ضروری نہیں ہے،بلکہ اگر وہ ساس سسر کی خدمت کرتی ہے ، تو یہ اس کا سراپا احسان ہے،ویسے بھی گھر کا کام کاج اور کھانا پکانا،بہو کی قانونی ذمہ داری نہیں،بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہے، اس لیے کہ خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات گھر کی ذمہ داریاں ادا کرتی تھیں، اور صحابہ کے گھر وں کا بھی یہی معمول تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹیوں کا طرزِ زندگی بھی یہی رہا، خاص طور پر حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہا گھر کی تمام ذمہ داریاں بذاتِ خود اَنجام دیتی تھیں۔