مفتی صاحب !آپ ان بھائیوں کو یہ بتلائیے کہ باپ کی میراث میں بہنوں کا حق ہوتا ہے یا نہیں ؟بلکہ میں تو یہ چاہوں گا، کہ آپ اپنے دستِ مبارک سے اِن تین بھائیوں اور دو بہنوں کے درمیان پوری جائداد کو تقسیم کردیجئے ۔
(۶) مفتی ماجد صاحب (بھائیوں سے مخاطب ہوکر):
عاکف !ذاتِ باری تعالیٰ نے جہاں لڑکوں کوحقِ وراثت عطا کیا،وہیں لڑکیوں کو بھی اس حق سے بہرہ ور فرمایا، اور ماں باپ کے انتقال کے بعدجس طرح لڑکے اپنے والدین کے وارث ہوتے ہیں، اسی طرح لڑکیاں بھی اپنے والدین کی وارث ہوتی ہیں،ارشادِ ربانی ہے: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِيٓ أَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ} ۔ ’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے ،مردکا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ (سورۂ نساء:۱۱)
لیکن آج غیر مسلم دنیا،خصوصاً یوروپ کا یہ تصور ہمارے ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے کہ- جب تک لڑکی ماں باپ کے گھر میں ہے، تو ماں باپ اُس کی ذمہ داریا ں ادا کرنے پر مجبور ہیں، لیکن جب وہ نکاح کے بعد شوہر کے گھر چلی جاتی ہے، تو ماں باپ سے ہر طرح کی معاشی ذمہ داریاں کٹ جاتی ہیں، حتی کہ ان کے انتقال کے بعد وہ میراث میں بھی حصہ دار نہیں رہتیں ،لیکن اسلام نے اس تصور کومستقل قانون کے ذریعے غلط ثابت کیا۔… ہمارے معاشرے، بلکہ پورے ملک میں یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھائی تمام متروکہ جائداد پر قبضہ کر بیٹھتا ہے، اور بہنوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اگر جائداد (میراث) میں حصہ لینا چاہتی