قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: {اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ} ۔
’’مرد عورتوں کے نگراں ہیں۔‘‘ (سورۂ نساء :۳۴)
اور حدیثِ پاک میں واردہے : ’’ اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِہٖ وَمَسْئُوْلٌ ‘‘ ۔
’’مرد اپنے اہلِ خانہ کا نگران ہے، اور اسی سے نگرانی کے حوالے سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
مرد کو بیوی پر جو حقوق حاصل ہیں، اُن کی بنیاد مرد کا قوام ہونا، اور گھر والوں کا اُس کی اِس حیثیت اور کردار کو تسلیم کرناہے، نہ یہ کہ عورت مرد بن کر زندگی گزارے، اور اُس کا دائرۂ کار بھی مرد کی طرح ہو، (جیسا کہ آزادیٔ نسواں کا پُرفریب نعرہ اور مساوات کے نعرہ سے آج عورتوں کوبے وقوف بنایا جارہا ہے)۔
شریعتِ اسلامیہ نے عورت پر مرد کے جو حقوق عائد کیے ہیں، میں آپ کی سماعت کے حوالہ کرتاہوں، آپ گھر جاکر اپنی صاحب زادی کے گوش گزار کردینا:
(۱)مرد کا سب سے پہلا حق …اُس کی اپنی بیوی پر ’’برتری‘‘ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ} ۔
’’مرد وں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ:۲۲۸)
اور حدیثِ پاک میں ہے : ’’ أَعْظَمُ النَّاسِ حَقًّا عَلَی الْمَرْأَۃِ زَوْجُہَا ‘‘ ۔
’’لوگوں میں سب سے زیادہ حق عورت پر اس کے شوہر کا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’ لَوْ کُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لأحَدٍ لأمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا ‘‘ ۔ ’’اگر میں (اللہ کے علاوہ) کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘