اندر، جب آفس سے اپنے کام کاج پو رے کرکے گھر میں داخل ہوتا ہوں، تو یہاں ایک دوسرا محاذ پہلے سے ہی کھلا ہوتا ہے،اور اس محاذ پر اُن کی صاحب زادی اِن کلمات کے ساتھ میرا بھر پور استقبال کرتی ہے، کہ بیوی کے بھی حقوق ہوتے ہیں، ان کو ادا کرنے کی فکر کیجئے، ذرا اپنے پڑوسی کو دیکھئے کہ کیسے اپنی بیوی کا خیال رکھتے ہیں، مختلف ملکوں کی سیرو تفریح کے لیے لے جاتے ہیں، ایک سے ایک لباس پہناتے ہیں، اور قیمتی سے قیمتی زیورات خود جویلری کے یہاں لے جاکر دلاتے ہیں، اور تم ہو کہ بس عید الفطر پر ایک جوڑا جو سلوادیا، اور رخصتی کے موقع پر جو نقلی زیورات دلوا دیئے، بار بار اسی کا احسان جتلاتے ہو، اتنا ہی نہیں! بات بات پریہ کہتی ہے کہ میں آپ سے خلع لے لوں گی، نہ اپنی نظر کی حفاظت کرتی ہے، اور نہ میری عزت کی، نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ میری اطاعت کرتی ہے۔
مفتی صاحب! آپ ان کے والد کو سمجھائیے کہ وہ اپنی بیٹی کو شوہر کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کریں، ورنہ بصورتِ دیگر میں اسے طلاق دے دوں گا۔
(۴) مفتی حامد صاحب(خسر سے مخاطب ہوکر):
جناب صابر صاحب! آپ اپنی صاحب زادی کو سمجھائیے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، اپنی نظر کی حفاظت کرے، نماز روزہ کی پابند ی کرے، اور اسے یہ بتائیے کہ انسانی معاشرت کی اَساس اور بنیاد خاندان ہے ، اور خاندان کا آغاز میاں بیوی کے مقدس رشتے سے ہوتا ہے، اور انہیں بنیادوں پر معاشرے کی پر شکوہ عمارت اور تہذیب وتمدن کا خوبصورت محل تعمیر ہوتا ہے،