بچنا چاہیے۔ میں آپ کے سامنے اولاد کے چند حقوق عرض کیے دیتا ہوں :
(۱)اولاد کو زحمت ، مصیبت ، بے قیمت خود کاشتہ پودا نہ سمجھیں، بلکہ یہ اللہ کی بیش بہا نعمت ہے ، اس کی ایسی ہی قدر کی جانی چاہیے، جیسے کسی بیش بہا نعمت کی قدر کی جاتی ہے۔
(۲) اولاد کو فقر وفاقہ اور تنگی کا سبب نہ سمجھیں، کیوں کہ غربت اور فقیری ،امیری اور مالداری یہ سب انسان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی لکھا جا چکا ہوتا ہے۔
(۳) جب اللہ تعالیٰ کسی کو نعمتِ اولاد عطا کرے، تو اس کی قدردانی کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ اس کی بہتر پرورش کی جائے ، اس کی ضروریات مہیا کی جائے، پیدائش کے بعد کان میں موبائل فون کی رنگ ٹون سنانے کی بجائے، اَذان دی جائے ، تحنیک، دعائے برکت، ساتویں دن عقیقہ ، اور بہتر سے بہتر نام رکھا جائے، غلط باتوں پر سمجھائیں ، محبت میں چھوٹ نہ دیں ،کیوں کہ اولاد جہاں نعمت ہے، وہاں آزمائش بھی ہے،ارشاد ہے :
{إِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ} ۔ (سورۂ تغابن :۱۵)
{إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ} ۔ (تغابن:۱۴)
{لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلآ أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} ۔ (منافقون:۹)
(۴)آخرت کے اعتبار سے ان کی فکر کی جائے ، کیوں کہ حکمِ خداوندی ہے:
{قُوٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا} ۔ (سورۂ تحریم :۶)