کہ تیری کفالت وپرورش کے لیے مجھے اپنی غیرتِ نفسی کو خیر باد کہنا پڑا، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلاکر، تیری ضرورتوں کی تکمیل کرنا پڑی، میں نے جب جب ان کے سامنے کسی عربی مدرسہ یا سرکاری اسکول میں تعلیم کی خواہش کا اظہار کیا، انہوں نے مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کردیا، اور کہا کہ تم کھیتی باڑی میں کام کرو، یا محنت مزدوری کرکے پانچ ، پچیس روپیہ روزانہ گھر میں لاکر دو، پڑھ لکھ کر کیا کروگے؟ کیا مسلمانوں کو نوکریاں ملتی ہیں؟ دیکھو اپنے محلے میں کتنے لڑکے عالم فاضل، بی اے، بی کام کی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود، آوارہ پھر رہے ہیں، حضرت مفتی صاحب! آپ میرے والدِ محترم کو بتلائیے کہ اولاد اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے! اور والد پر اولاد کے کیا کیا حقوق ہیں؟
(۲) مفتی حامد صاحب(والد سے مخاطب ہوکر):
جاوید!آپ کا اپنی اولاد کو کوسنا ، ان کے وجود کو بجائے رحمت کے زحمت سمجھنا، اور باربار یہ طعنہ دینا کہ تیری کفالت وپرورش کے لیے مجھے اپنی عزت نفس کو خیرباد کہنا پڑا ، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا، درست نہیں ہے ، کیوں کہ حدیث میں ہے کہ : ’’ فَإِنَّمَا تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ بِضُعَفَآئِکُمْ ‘‘ ۔ ’’تمہاری مدد کی جاتی ہے، اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے تمہارے کمزوروں کی وجہ سے۔ ‘‘
(ریاض الصا لحین :ص/۶۲)
اسی طرح اپنی اولادکو تعلیم نہ دلوا کر، اُنہیں کھیتی باڑی یا مزدوری وغیرہ میں لگادینا، اور یہ کہنا کہ پڑھ لکھ کر کیا کروگے؟ وغیرہ ، یہ سب نامناسب کلمات ہیں ، جن سے