کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے : ؎
ظاہر کو تم نہ جانچو، ذرا اندر بھی جاکے دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے؟ کیا چیز مررہی ہے ؟!
نیز آپ کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہمار ا وجود ، ہماری عزت وترقی ،ہمارا مستقبل،سب علومِ عصریہ سے وابستہ ہیں ، جب کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ : ’’ اللہ ہی کسی قوم کو باقی رکھتا ہے اور وہی فنا کے گھاٹ اُتارتا ہے : {ہُوَ یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ}۔…عزت وذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے:
{قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِيْ الْمُلْکَ مَنْ تَشَائُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَائُ ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَائُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَائُ ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ ، إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌo} ۔ (سورۂ آل عمران:۲۶)
’’آپ کہیے! اے سارے ملکوں کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دیدے، اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے ، تو جسے چاہے عزت دے ، اور تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماگئے : ؎
تمہاری قوم کی تو بنیاد ہی دین وایمان پر !!!!!!!!
تمہاری زندگی موقوف ہے تعمیلِ قرآن پر!!!!!!!
تمہاری فتح یابی منحصر ہے فضلِ یزداں پر!!!!!!!!!
نہ قوت پر ، نہ کثرت پر، نہ شوکت پر ، نہ سامان پر!