بہانے ہوںگے ، اور ہمارا نہ کوئی پرسانِ حال ہوگا، اور نہ کوئی اشک سوئی کرنے والا۔
بکر: دانش ور صاحب !آپ کی تمام باتیں بکواس ہیں ، آپ کا یہ کہنا کہ :
’’ ہمارا مستقبل اس وقت روشن ہوگا، جب اس قوم میں ڈاکٹر ، انجنیئر ، آفیسر، جج اور سائنٹسٹ پیدا ہوں گے۔‘‘
میں آپ سے پوچھتا ہوں ، ہم جس دور کو اسلام کا تابناک اور روشن دور کہتے ہیں یعنی صحابہ کرام ، تابعین اور تبعِ تابعین کا دور ، کیا اس دور میں آج کل کی طرح ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر، جج اور سائنٹسٹ موجود تھے ؟… نہیں ؛… اس کے باوجود ہمارا وہ دور، روشن وتابناک تھا ۔
اسی طرح آپ کا یہ کہنا کہ :… ’’ مولوی لوگ کنویں کے مینڈک کی طرح ہیں جن کا ذہن محدود ، محض چند ہزار تن خواہ پر گزران کرتے ہیں ‘ ‘ … درست نہیں ہے ، کیوں کہ تم لوگ ظاہری ٹیپ ٹاپ ، ٹائی بائی اور شوٹ بوٹ میں رہتے ہوں ، مگر حقیقۃً {خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} یعنی قسمہا قسم کے ٹینشن اور پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہوں ، تمہاری تن خواہ دس ہزار مگر تم دو بچوں کی کفالت بھی صحیح طورپر نہیں کرپاتے، اور تحدیدِ نسل کا نسخہ آزما کر اپنے آپ کو بنگاہِ شرع مجرم قرار دیتے ہوں، جب کہ مولوی لوگوں کی تن خواہ محض دو ہزار ہوتی ہے، مگر وہ بحمد اللہ دس بچوں کی کفالت بہتر طریقے سے کرتے ہیں ، ان کی قلت میں برکت ہوتی ہے ، اور تمہاری کثرت بے برکتی کا شکار!
الحمد للہ علی ذلک!