نقصان کاذمہ دار ہوگا،اگردونوں کاسر مایہ آدھاآدھاتھا، تودونوںکا نقصان بھی آدھاآدھا ہوگا،اوراگر سر مایہ تین حصوںپر منقسم تھا، تونقصان بھی تین حصوںپر منقسم ہوگا، نیز امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام شعبی ،جابر ابن زید،اور امام نخعی رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔‘‘ (۵/۲۸)
اسی طرح فقہ کایہ مسلمہ قاعدہ ہے: ’’ اَلْغُرْمُ بِالْغُنْمِ ‘‘ -’’تاوان نفع کے مطابق ہوتاہے۔‘‘ (دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام :۱/۹۰،رقم المادۃ:۸۷)
رہا وکیلِ موصوف کا اپنی دلیل میںآیتِ قرآنی{وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُوْلًا}کو پیش کرنا، تووہ درست نہیں، کیوں کہ بیہقی کی روایت ہے:
عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : ’’ إِذَا وَعَدَ الرَّجُلُ أَخَاہُ وَمِنْ نِیَّتِہٖ أَنْ یَفِيَ لَہٗ فَلَمْ یَفِ وَلَمْ یَجِيئْ لِلْمِیْعَادِ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ ‘‘ ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقي :۱۰/۳۳۵ٰٰ ، رقم :۲۰۸۳۸)
فِیْہِ دَلِیْلٌ عَلَی أَنَّ الْوَفَائَ بِالْوَعْدِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ شَرْعِيٍّ بَلْ ہُوَ مِنْ مَّکَارِمِ الأَخْلاَقِ بَعْدَ انْ کَانَ نِیَّۃ الْوَفَاء ۔ (حاشیہ جلالین :۱/۹۴، المائدۃ)
جب آدمی اپنے مسلم بھائی سے وعدہ کرے، اور اس کی نیت وعدہ پوراکرنے کی بھی ہو، پھر کسی وجہ سے وہ اس وعدے کو پورا نہ کرسکے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھاہے کہ یہ حدیث دال ہے اس بات پر، کہ وفائے عہد (وعدہ پوراکرنا ) واجبِ شرعی نہیں، بلکہ مکارمِ اخلاق میں سے ہے ، بشرطیکہ اس کی نیت وعدہ پورا کرنے کی ہو۔