اسی طرح وکیل موصوف کا اپنی دلیل میں حدیث : ’’ اَلْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی شُرُوْطِہِمْ ‘‘کوپیش کرنا، یہ سراسر علمی خیانت یا قصورِ مطالعہ پر مبنی ہے، کیوں کہ آپ نے صرف حدیث کا ایک جز پیش فرمایا، اور جزئِ ثانی سے صرفِ نظر کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے ،کہ اُنہیں شرطوں کا پاس ولحاظ ضروری ہوتا ہے، جو شریعت کی حرام کردہ چیز وں کوحلال ،او ر حلال کردہ چیزوں کو حرام نہ قرار دے ،جب کہ عقد شرکت میں یہ شرط لگانا، کہ میں نقصان میں شریک نہیں رہوںگا، سود کے دروازے کو کھولتا ہے، اور وہ اس طرح کہ شریعت کسی بھی شخص کو نفع کا حق دار اُس وقت قرار دیتی ہے، جب وہ رِسک لیتا ہو (یعنی نقصان میں بھی شریک ہوتاہو)، اور یہاں رسک لینا نہیںپایا گیا، اب جو بھی نفع حاصل ہوگا ،وہ محض اپنی اصل رقم قرض پر دینے کی وجہ سے ہوگا ،اور قرض پر نفع کمانا شرعاً حرام ہے ،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَہُوَ رِبًا ‘‘ ۔
(فیض القدیر :۵/۲۸، حدیث:۶۳۳۶، قواعد الفقہ :ص/۱۰۲)
اس لیے یہ شرط، شرعاً باطل ٹھہری،اوراس کاپاس ولحاظ کرنامقاصدِشرع کے خلاف ہونے کی وجہ سے خود باطل ہے۔
ان تمام دلائل کاخلاصہ یہ نکلا کہ حامد اس کاروبارمیںہونے والے نقصان میں برابر کاشریک ہے،اوراس کاخالد سے اپنے اصل سرمایہ کی واپسی کامطالبہ شرعاً بالکل جائز نہیں، اوراس نے خالدکوجوزدوکوب کیا،اوراس کی ہتکِ عزت کی، اس پر دفعہ دو ؛ بابت حفاظتِ نفس و عزت کے تحت اس کو سزاملنی چاہیے۔