ذمہ دارقرارپاتا ہے ، کیوںکہ یہ شرکت، شرکتِ عِنان ہے، جس میں ہر شریک اپنے حصہ ٔ مال کے تناسب سے نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ اَلرِّبْحُ عَلٰی مَا شَرَطَا وَالْوَضِیْعَۃُ عَلٰی قَدْرِ الْمَالَیْنِ ‘‘ ۔ ’’نفع شرط کے مطابق تقسیم ہوگااورنقصان میں دونوں اپنے اپنے مال کی بقدرشریک ہوں گے۔‘‘ (اعلاء السنن:۱۳/۷۶)
اسی طرح ۴۶۱ھ کے مشہور محقق،فقیہ وقانون داں،شیخ الاسلام،قاضی القضاۃ ابوالحسن علی ابن حسین ابن محمد السُّغدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ أَمَّا تَفْضِیْلُ الْوَضِیْعَۃِ فَلاَ یَجُوْزُمُتَّفَقًا ‘‘ ۔
(عقد شرکت میںہرشریک اپنے حصۂ مال کے تناسب سے برابر کاشریک ہوگا، اس میںکمی بیشی کرناباتفاقِ فقہاء، بالکل جائزنہیں ہے ۔ )
(النتف في الفتاوی :ص/۳۲۴)
عصر حاضر کے ایک زبر دست فقیہ، شیخ عبدالحمید محمود طہماز،اپنی انمول وانوکھی تالیف ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘میں رقم طرازہیں:
’’ وَالْوَضِیْعَۃُ عَلَی قَدْرِ الْمَالِ یَعْنِيْ الخُسْرَانَ فِيْ الشِّرْکَۃِ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا بِقَدْرِ مَالِہٖ ، فَإِنْ کَانَ مَالُہُمَا مُتَسَاوِیًا فِيْ الْقَدْرِ فَالْخُسْرَانُ بَیْنَہُمَا نِصْفَیْنِ ، وَإِنْ کَانَ أَثْلاثًا فَالْوَضِیْعَۃُ أَثْلاثًا ، لَا نَعْلَمُ فِيْ ہٰذَا خِلافًا بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ ، وَبِہٖ یَقُوْلُ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ وَالشَّافِعِيُّ وَغَیْرُہُمَا ، وَہُوَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ وَجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ وَالنَّخَعِيِّ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ ‘‘ ۔
’’تمام اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ ہر شریک اپنے حصۂ مال کے تناسب سے