مطابق، مدعی کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے، تمام وارثوں کے درمیان ان کے والد کی جائداد، حسبِ حصصِ شرعیہ برابر تقسیم فرمائیں گے!
جج صاحب :
وکیلِ استِغاثہ اور وکیلِ دفاع؛ دونوں کی بحث کو سن کر، عدالت اِس نتیجے پر پہنچی کہ مرحوم زید اور اُن کی تمام اولاد ایک جوائنٹ فیملی کے طور پر رہ رہے تھے، تمام کاروبار اور آمدنیاں مشترک تھیں، اور تمام اولاد مرحوم کے زیر کفالت تھیں، لہٰذا حامد کا اپنے والد کے مکان میں زائد حصہ مانگنا شرعاً وعقلاً درست نہیں، رہی یہ بات کہ حامد نے اپنی تن خواہ میں سے ایک بڑی رقم مکان کی تعمیر کے لیے دی تھی، اس لیے اس کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے، تو یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ حامد نے اپنے والدکو یہ رقم جس وقت پیش کی تھی ، اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی، کہ یہ رقم وہ بطورِ قرض دے رہا ہے، یا بطورِ شرکت؟ اگر یہ وضاحت ہوتی کہ وہ یہ رقم بطورِ قرض دے رہا ہے، تو اس صورت میں وہ اتنی رقم کی واپسی کا حق دار ہوتا ،جیسا کہ ’’رد المحتار :۵/۶۷۵‘‘ کی عبارت: ’’ إنَّ الدُّیُوْنَ تُقْضٰی بِأَمْثَالِہَا ‘‘سے ثابت ہوتا ہے۔
اور اگر یہ وضاحت ہوتی، کہ وہ یہ رقم بطورِ شرکت دے رہا ہے، تو اس صورت میں مکان کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ساتھ، اس کے حصے کی مالیت میں بھی اضافہ ہوتا، اور وہ اس کا حق دار ہوتا،جیسا کہ ’’فتاویٰ عالمگیری:۲/۳۰۲‘‘ کی عبارت :
’’أمَّا الشِّرْکَۃُ بِالْمَالِ فَہِيَ أنْ یَشْتَرِکَ اِثْنَاْنِ فِيْ رَأْسِ مَالٍ فَیَقُوْلانِ :