اشْتَرَکْنَا فِیْہِ عَلٰی أنْ نَشْتَرِيَ وَنَبِیْعَ مَعًا أوْ شَتّٰی أوْ أطْلَقَا عَلٰی أنَّ مَا رَزَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رِبْحٍ فَہُوَ بَیْنَنَا عَلٰی شَرْطِ کَذَا ، أوْ یَقُوْلَ أحَدُہُمَا ذٰلِکَ ، وَیَقُوْلُ الآخَرُ نَعَمْ ۔ کَذَا فِي الْبَدَائِع‘‘ ۔سے واضح ہوتا ہے۔
لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، اور ظاہر یہی ہے کہ اس نے یہ رقم اپنے والد کو بطورِ ہدیہ وتعاون دی تھی، اور فقہ کاقاعدہ ہے: ’’الأصلُ أنَّ مَنْ سَاعَدَہُ الظَّاہِرُ فَالْقَوْلُ قَوْلُہٗ ‘‘۔ (أصولُ الکَرخِي ، مادۃ :۳)-لہٰذا ظاہر کو بنیاد بناکر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ پورا مکان والد ہی کی ملک ہے، اور اس میں تمام اولاد اپنے حصصِ شرعیہ کے مطابق حق دار ہے، اور حامد کا اپنے حصے سے زائد کامطالَبہ شرعاً وعقلاً درست نہیں ہے۔
OoOoOoOoOoO