مؤکل؛ حامد کا کہنا ہے کہ اس مکان میں میرا حصہ زیادہ ہے، کیوں کہ میں نے والد صاحب کو اس مکان کی تعمیر میںایک بڑی رقم دی تھی، اور دیگر اولاد یہ کہتی ہے کہ ہم نے والدین اور ان کے کاروبار کو سنبھالا، کاروبار کو ترقی دی، والدین کی خدمت کی، اگر تمہیں اس مکان میں زیادہ حصہ چاہیے، تو پھر والد کے کاروبار میں تمہیں اپنے حصے سے دست بردار ہونا پڑے گا، کیوں کہ کاروبار کو بامِ عروج پر ہم نے پہنچایا، آپ تو آرام سے گورنمنٹ کی اے سی آفس میں بیٹھے حکومت کرتے رہے۔
جناب جج صاحب! میں آپ سے گزارش کرتا ہوں، کہ آپ میرے مؤکل؛ حامد صاحب کو، ان کے والد کے کاروبار، اور مکان میں ان کا واجب حصہ دلاکر انصاف فرمائیں !
وکیل دفاع ثالث - مع مدعی علیہ ثالث :
جناب جج صاحب! میرے مؤکل (شاہد، زاہد ، راشد)ایک جوائنٹ فیملی کے افراد ہیں، اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی میں تمام آمدنی اور اخراجات مشترکہ ہوتے ہیں، تمام افراد باپ کے مکان اور کاروبار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں، کسی کے کم اور کسی کے زیادہ کمانے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ، باپ خاندان کا سر براہ ہوتا ہے، اس کے انتقال کے بعد اس کی تمام جائداد ، اُس کے وارثین کے مابین حصصِ شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوتی ہے، تو پھر مدعی کا اپنے حصۂ شرعی سے زیادہ مانگنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟ اس کا دعویٰ شرعاً وعقلاً صحیح ودرست نہیں ہے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ آں جناب، عقل وشرع کے تقاضوں کے