کی تکمیل کے لیے شریعت نے ہمیں چند اصولوں کا مکلف و پابند کیا ، اور وہ یہ ہیں:
(۱) أَنْ یَّکُوْنَ الْمَبِیْعُ مَوْجُوْدًا حِیْن الْعَقْدِ ، فَلا یَصِحُّ بَیْعُ الْمَعْدُوْمِ ۔ وَذٰلِکَ بِاِتِّفَاقِ الْفُقَہَائِ ۔ ’’معاملے کے وقت فروخت کی جانے والی چیز موجود ہو، لہٰذا غیر موجود چیز کی خرید وفروخت درست نہیں۔‘‘
(۲) أَنْ یَّکُوْنَ مَالًا ، فَمَا لَیْسَ بِمَالٍ لَیْسَ مَحَلاًّ لِلْمُبَادَلَۃِ بِعِوَضٍ ۔
’’فروخت کی جانے والی چیز شریعت کی نگاہ میں مالِ متقوم ہو، لہٰذا حرام چیزوں کی بیع درست نہیں۔‘‘
(۳) أَنْ یَّکُوْنَ مَمْلُوْکًا لِّمَنْ یَّلِي الْعَقْدَ ، فَلا یَصِحُّ بَیْعُ مَا لا یَمْلِکُہٗ لِحَدِیْثِ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ : ’’ لا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ ‘‘ ۔ (ترمذي)
’’آدمی جس چیز کو فروخت کررہا ہے، وہ اس کا مالک ہو ، لہٰذا جس چیز کا وہ مالک نہیں، اُس کی بیع بھی درست نہیں۔‘‘
(۴) أَنْ یَّکُوْنَ مَقْدُوْرَ التَّسْلِیْمِ ، فَلا یَصِحُّ بَیْعُ غَیْرَ مَقْدُوْرِ التَّسْلِیْمِ ، فَلا یَصِحُّ بَیْعُ الْجَمَلِ الشَّارِدِ ، وَلا بَیْعُ الطَّیْرِ فِيْ الْہَوَائِ ، وَلا السَّمَکِ فِيْ الْمَائِ ، لِـ ’’ نَہْيِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ ‘‘ ۔
’’جس چیز کو فروخت کیا جارہا ہے، اس کے سپرد کرنے پر قادر ہو، لہٰذا بِدک کر بھاگے ہوئے اُونٹ، ہوامیں اُڑتے ہوئے پرندے، اور پانی میں موجود مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
(۵) أَنْ یَّکُوْنَ مَعْلُوْمًا لِکُلٍّ مِّنَ الْعَاقِدَیْنِ ، فَبَیْعُ الْمَجْہُوْلِ جِہَاْلَۃً