اور آپ ﷺکے فرمان: ’’ أَلاَ ! لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍٔ مُّسْلِمٍ إِلَّا بِطِیْبِ نَفْسٍ مِّنْہُ ‘‘ ۔ (سنن دار قطني :۳/۲۲)
… کے تحت، حامد پاشا کو، یہ حکم دیتی ہے کہ وہ خالد وماجد کو، اُن کے بیعانہ کی رقم واپس کردے، اور حکومتِ وقت کو یہ ہدایت دیتی ہے، کہ پارلیمینٹ میں ایسا بِل پاس کرے، جس سے کاروبار کی اِس شکل پر بریک لگ جائے، اور لوگ ناحق وباطل طریقے پر ایک دوسرے کے مال کھانے سے بچ جائیں، تاکہ اس طرح کے معاملات میں پھنس کر معاشرے کا چین وسکون تباہ وبرباد نہ ہو،کیوں کہ خرید وفروخت کی ایسی صورت؛ جس میں آدمی ٹوکن دے کر محض (Agreement to sell) معاہدۂ بیع کرتا ہے ، اور معاملہ کو حتمی شکل دینے کے لیے طرفین کی رضامندی سے ایک مدت طے ہوتی ہے، بیعِ تام نہیں ، بلکہ معاہدۂ بیع ہے، جس کی وجہ سے وہ اس زمین کا مالک نہیں ہوتاہے ، لہٰذا آگے کسی اور کے ہاتھوں اُس کا اِس زمین کو فروخت کرنا، شرعاً درست نہیں، لیکن عامۃًیہ ہوتا ہے کہ مدتِ مہلت کے درمیان، خریدار اس زمین کواپنی ملک میں آنے سے پہلے، محض سودا پاؤتی کی بنیاد پر، کسی اور کے ہاتھ فروخت کرتا ہے، اور پھر وہ آگے کسی اور کے ہاتھ ، اس طرح محض ٹوکن دے کر، خرید وفروخت کا یہ سلسلہ کئی لوگوں تک پہنچتا ہے،اور جب پہلے مرحلے میں طرفین کے مابین یہ معاملہ مکمل نہیں ہوپاتا، تو پھر آگے معاملہ کرنے والے، ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوجاتے ہیں، جھگڑے ، فساد اور مقدمہ بازیوں کی نوبت آپہنچتی ہے، جیسا کہ آج کا یہ مقدمہ اس کی تازہ مثال ہے۔
حاضرین! خریدوفروخت ؛ یقینا انسانی ضروریات میں داخل ہے،مگر اس