تُفْضِيْ إِلَی الْمُنَازَعَۃِ غَیْرُ صَحِیْحٍ کَبَیْعِ شَاۃٍ مِّنَ الْقَطِیْعِ ۔ (وَہٰذَا شَرْطُ صِحَّۃٍ لا شَرْطُ اِنْعِقَادٍ - أَيْ لَمْ یَبْطُلِ الْعَقْدُ بَلْ یَصِیْرُ فَاسِدًا)
’’جس چیز کو فروخت کیا جارہا ہے، وہ عاقدین میں سے ہر ایک کو معلوم ہو، لہٰذا ایسی مجہول و غیر معلوم چیز کی بیع ؛ جس کی جہالت ولا علمی جھگڑے فساد کا سبب بنے درست نہیں۔‘‘ (الموسوعۃ الفقہیۃ)
آج ہم مسلمانوں نے خرید وفروخت کے سلسلے میں، شریعت کے ان رہنما اصولوں کو نظر انداز کردیا، اور لین دین کی ایسی صورتوں کو بھی اپنا لیا، جو شریعت کی نگاہ میں ناجائز وحرام ہیں، جس کی وجہ سے ہم اکلِ حلال کی نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں، اور اسی کا یہ اثر ہے کہ اعمالِ صالحہ میں ہماری رغبتیںدن بدن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہیں،کیوں کہ اکلِ حلال اور اعمالِ صالحہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے ، ارشادِ ربانی ہے: {یٰآ أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صٰلِحًا اِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ} ۔’’اے پیغمبرو! تم اور تمہاری امتیں نفیس چیزیں کھاؤ کہ خداکی نعمت ہے، اور کھاکر خدا کا شکر ادا کرو- کہ نیک کام کرو، میں تم سب کے کیے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں۔‘‘ (سورۃ المؤمنون:۵۱)
اِس آیت کی تفسیر میںحضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ : اکلِ حلال اور عملِ صالح ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے‘‘ ، جب غذا حلال ہوتی ہے، تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے، اور غذا حرام ہو، تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے