کہ قانون کی دفعہ 82:
’’ تَرْکُ الإحْسَانِ لا یَکُوْنُ إِسَائَ ۃً ‘‘…اِس پر شاہد ہے۔
وکیل استغاثہ: جناب جج صاحب!
وکیلِ دفاع نے اپنے مؤکل کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا :
قانونِ شرع کی دفعہ 69 :
’’ اَلْعُرْفُ فِيْ الشَّرْعِ لَہٗ اعْتِبَارٌ ٭ لِذَا عَلَیْہِ الْحُکْمُ قَدْ یُدَارُ ‘‘
… کے تحت میرا مؤکل (مدعی) بیعانہ کی رقم واپس لینے کا حق دار نہیں ہے۔
عالی جناب! زیرِ سماعت مقدمے سے اِس دفعہ کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیوں کہ عرف ورَواج کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے ، جب کہ وہ مخالفِ شرع نہ ہو، اور اس کی صراحت قوانینِ اسلام کے ماہر، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے، اِن الفاظ میں فرمائی ہے: ’’ اَلْعَمَلُ بِالْعُرْفِ مَا لَمْ یُخَالِفِ الشَّرِیْعَۃَ ‘‘ ۔ (رسم المفتي :ص/۱۸۱)
…نیز وکیلِ موصوف نے یہ بھی کہا کہ ؛ اس کے مؤکل کے غیر اسلامی اخلاق کے اَپنانے پر وہ مستحق تعزیر نہیں، حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دینِ اسلام کا دار ومدار ہی ایک دوسرے کی خیر خواہی، ہم دردی وغم خواری پر ہے، جیسا کہ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ‘‘ ۔ (صحیح بخاري)
جج صاحب(مفتی خیر محمد):
فریقین کے دلائل و جرح کی سماعت کے بعد؛عدالتِ عالیہ، کتابِ قانون کی دفعہ:
{لا تَأْکُلُوٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} ۔ (سورۃ النساء :۲۹)