اللّٰہُ عَنْہُ کُرَب الآخِرَۃِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَاللّٰہُ فِيْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِيْ عَوْنِ أَخِیْہِ ‘‘ ۔ (سنن النسائي :۴/۳۰۸ ، قضاء الحوائج لإبن أبي الدنیا :۱/۳۸)
لہٰذامیں عدالتِ عالیہ سے درخواست کرتا ہوں، کہ مدعیٰ علیہ کو اُس کے اِس غیر اخلاقی فعل پر تعزیر کی جائے، اور میرے مؤکلوں کو، بیعانہ کی رقم واپس کی جائے!
وکیل دفاع(خسرو میاں): محترم جج صاحب!
وکیلِ استغاثہ عدالتِ عالیہ کو گمراہ کررہا ہے، اس کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نہ قانون پڑھا، نہ تاجروں کے عرف ورَواج کو سمجھا، زمین کے کاروبار میں تاجروں کا عرف ورَواج یہ ہے کہ ؛ جب سودے کینسل ہوجاتے ہیں، تو نہ ٹوکن کی رقم واپس کی جاتی ہے، اور نہ خریداروں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہوتا ہے، گویا دونوں اس بات پر راضی ہوتے ہیں، اور کسی بھی معاملے میں طرفین کی رضامندی اس معاملہ پر اثر انداز ہوا کرتی ہے، جیسے ؛نکاح، بیع ، اجارہ وغیرہ!
نیز معاملات میں عرف ورَواج کا اعتبار ہوتا ہے، اور عرف ورَواج یہی ہے کہ بیعانہ کی رقم واپس نہیں کی جاتی، جیسا کہ قانونِ شرع کی دفعہ 69 :
’’ اَلْعُرْفُ فِيْ الشَّرْعِ لَہٗ اعْتِبَارٌ ٭ لِذَا عَلَیْہِ الْحُکْمُ قَدْ یُدَارُ ‘‘
…اِس پر شاہد ہے، اس لیے مدعی بیعانہ کی رقم واپس لینے کا حق دار نہیں ہے۔
رہی یہ بات! کہ میرے مؤکل (حامد پاشا) نے مصیبت کی گھڑی میں مدعیٰ علیہ؛ ماجد وخالد کو تسلی نہیں دی، اور ان کے ساتھ اظہارِ ہم دردی وغم خواری کا معاملہ نہیں کیا، تو یہ محض اخلاقی واحسانی چیز ہے، جس پر تعزیر نہیں کی جاسکتی!کیوں