ترجمان: خالد وماجد ملک کے معروف ومشہور وکیل ’’صدر الدین آزردہ‘‘ کے ذریعہ عدالتِ عالیہ میں اپنا یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں، جس کی سماعت کے لیے ۱۲؍ شعبان المعظم ۱۴۳۵ھ کی تاریخ طے کی جاتی ہے،لیجیے ! ۱۲؍ تاریخ آپہنچی ، اور دونوں فریق اپنے اپنے وکیل کے ساتھ احاطۂ عدالت میں موجود ہیں!
پیش کار: مقدمہ نمبر ایک کے مدعی اور مدعیٰ علیہ کمرۂ عدالت میں حاضر ہوں!
وکیل استغاثہ(صدر الدین): جناب جج صاحب!
میرے مؤکل - ماجد وخالد- نے حامد پاشا صاحب سے، چار کروڑ نوے لاکھ میں پانچ ایکڑ زمین کا سودا کیا، بطورِ ٹوکن (بیعانہ) انہیں تین لاکھ روپئے دیئے، بقیہ رقم کی ادائیگی اور معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک سال کی مدت باہمی رضامندی سے طے پائی، اس درمیان میرے مؤکلوں نے جان توڑ کوشش کی کہ کسی طرح یہ معاملہ ڈِیل ہوجائے، مگر جج صاحب ! آپ بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قدرت کی مشیت کے بغیر، آدمی اپنی محنت میں کامیاب نہیں ہوسکتا، یہی کچھ میرے مؤکلوں کے ساتھ ہوا، اور وہ اس معاملے کو ڈِیل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے، مدعیٰ علیہ -حامد- کو چاہیے تھا، کہ کشادہ دِلی وہمدردی کا مظاہرہ کرتا، ان مصیبتوں کے ماروں کو تسلی دیتا ، ان کے بیعانہ کی رقم واپس کرتا، کہ یہی مومنانہ اخلاق، اور شرعی قانون کا تقاضا تھا، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
{لا تَأْکُلُوٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} ۔ (سورۃ النساء :۲۹)
اور آپ ﷺکا ارشادہے: ’’ مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا فَرَّجَ