حامد پاشا(غصہ میں لال پیلے ہوکربآوازِ بلند):
کم بختوں ! میں نے پہلے ہی تمہارے ساتھ احسان کامعاملہ کیا، پانچ کروڑ کی زمین چار کروڑ نوے لاکھ میں دینے کا وعدہ کیا، پیمینٹ کی ادائیگی کے لیے سال بھر کی مہلت دی، اورآج ایک سال بعد تم لوگ اس سودے کو کینسل کررہے ہو، جب کہ اس درمیان کئی گاہک بڑی بڑی قیمتوں کا آفر لے کر آئے ، مگر میں نے انہیں یہ زمین نہ دی، بلکہ تمہارے ساتھ کیے ہوئے سودے کے مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا، اور آج تم مجھ سے ایسی باتیں کررہے ہو! …جاؤ! معاملہ ختم، اور تمہارے ٹوکن کی رقم بھی تمہیں واپس نہیں دی جائے گی! جو بنے کرلینا!
ترجمان:خالد وماجد اپنی سال بھرکی محنت پر پانی پھر جانے، اور اصل سرمایہ کے ڈوب جانے پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، تو ایک دِین دارشخص (امتیاز) انہیں تسلی دیتا ہے:
امتیاز(ایک دیندار): دیکھو بھائیو! نفع ونقصان قسمت کا فیصلہ ہوتاہے، اس پر راضی رہنا چاہیے، اتنا زیادہ رنجیدہ اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ حامد میاں نے تمہارے بیعانہ کی جو رقم رکھ لی، وہ اچھا نہیں کیا، اسے تمہارے حال پر رحم کرنا چاہیے تھا، اور تم لوگوں نے حامد میاں کے ساتھ اپنے معاملے کے مکمل ہونے سے پہلے ہی، اس کی زمین کا جو سودا پپوسیٹھ سے کیا، یہ بھی اچھا نہیںکیا، اب ایسا کرو، تم اپنایہ مقدمہ کسی ماہر وکیل کے ذریعہ، شرعی عدالت میں داخل کردو، یقین ہے کہ تمہیں ضرور انصاف ملے گا، اور تمہارے بیعانہ کی رقم بھی واپس مل جائے گی۔