اِس صورت میں خریدار کو اپنے اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتا ہے۔ اِن نگاہوں نے بہتوں کو دیکھا ؛ اس بزنس میں آئے ، راتوں رات اُن کا نصیبہ چمک گیا، ’’روڑ پتی‘‘ سے ’’کروڑ پتی‘‘ بن گئے، اور بہت سے ایسوں کو بھی؛ جنہیں نفع توکیا ملتا ، مزید قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے، ایک روٹی کے چکر میں آدھی بھی ہاتھ سے چلی گئی۔
ماجد: چچا! یہ اصول سمجھ میں آگیا، اسی اصول کے مطابق ہم آپ سے یہ معاملہ کرنا چاہتے ہیں، تو فرمائیے!آپ ہمارے لیے اس زمین کی قیمت کیا لگاؤگے؟اور پیمینٹ کی ادائیگی کے لیے کتنی مہلت دو گے؟
حامد پاشا:کوئی اور ہوتا، تو میں ایک روپیہ بھی کم نہ کرتا، میری یہ زمین سونا ہے سونا، چوں کہ تم میرے مرحوم دوست کی اکلوتی اولاد ہو، تم روپئے کماؤ مجھے اس میں خوشی محسوس ہوگی، اس لیے میں تمہیں یہ زمین چار کروڑ ۹۰ ؍ لاکھ میںدینے کا وعدہ کرتا ہوں، جس کے لیے آپ تین لاکھ روپئے بطورِ بیعانہ دونگے، اورٹھیک ایک سال بعد پوری قیمت ادا کرکے، اس معاملے کو حتمی شکل دے کر ، خریدی بِکری کرلی جائے گی، تم تین لاکھ روپئے دیدو، میں تمہیں ایگریمینٹ ٹوسیل (وعدۂ بیع) کی دستاویز بنادیتا ہوں۔
ماجد: ٹھیک ہے چچا! یہ لیجیے … تین لاکھ روپئے کا ٹوکن(بیعانہ)۔
ترجمان: ماجد وخالد دونوں بہت خوش ہیں، گھر جاتے وقت انہوں نے بازار سے، اپنے دوست واحباب اور گھر والوں کے لیے مٹھائیاں خریدیں، اور سب کا منھ میٹھا کیا۔