وکیل استغاثہ: محترم جج صاحب!
وکیلِ دفاع عدالتِ عالیہ کو گمراہ کررہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اُن کے مؤکل نے اِس جرم کا ارتکاب مجبوری میں نہیں، بلکہ لوٹ مار کے عادی مجرم ہونے کی وجہ سے کیا ہے، نیز وکیلِ دفاع جن چیزوں کو اُس کی ضرورتیں قرار دے رہا ہے، اُن میں سے اکثر ضرورت نہیں، بلکہ عیاشی ہے، اور کسی انسان کی اِس طرح کی ضرورتیں اُسے لوٹ مار جیسے جرائم کی اجازت نہیں دیتیں،ورنہ کسی بھی فرد کا مال محفوظ وسلامت نہیں رہے گا، لہٰذا مجرم کو اُس کے اِس جرم کی کڑی سزا دے کر، لوگوں کے مالوں کو محفوظ کیا جائے۔
جـج: عدالتِ عالیہ… اللہ تعالیٰ کے فرمان:
{إِنَّمَا جَزَآئُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِيْ الأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوٓا أَوْ یُصَلَّبُوٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الأرْضِ ، ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْيٌ فِيْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِيْ الاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} ۔ (سورۃ المائدۃ :۳۳)
اور مقاصد شریعت کی دفعہ؍ ۴ ’’حفاظتِ مال ‘‘کے تحت، مجرم کے داہنے ہاتھ، اور بائیں پاؤں کو کاٹ دیئے جانے ، نیز لوٹا ہوا مال چوں کہ اُس کے پاس موجود ہے، اِس لیے اُس کے واپس کرنے کا حکم سناتی ہے۔ (۳)
OoOoOoOoOoO