اس لیے میں عدالتِ عالیہ سے درخواست کرتا ہوں، کہ میرے مؤکل کو باعزت بری کیا جائے۔
وکیل استغاثہ: محترم جج صاحب!
وکیلِ دفاع کا یہ کہنا، کہ اُس کا مؤکل بطورِ علاج کے شراب نوشی کرتا ہے، بالکل غلط ہے، بلکہ پورا محلہ اس پر شاہد ہے کہ شراب نوشی کی عادت سے پہلے مؤکل توانا وصحت مند تھا، شراب کی لَت اور عادت نے اُسے بیمار بنادیا، لہٰذا اُسے شراب نوشی اور پڑوسی کو دِق کرنے کی سخت ترین سزا دی جائے۔
جـج(وکیل دفاع سے مخاطب ہوکر):
تمام ثبوتوں اور شواہدسے یہ بات ثابت ہوچکی، کہ آپ کا مؤکل شراب کا عادی ہے،لہٰذا عدالتِ عالیہ، فرمانِ باری تعالیٰ:
{یٰآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِيْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ} ۔
(سورۃ المائدۃ :۹۰،۹۱)
…اور مقاصد شریعت کی دفعہ؍ ۵ ’’ حفاظتِ عقل‘‘ کے تحت، اَسّی (۸۰) کوڑے لگانے کا حکم سناتی ہے۔
OoOoOoOoOoO