کی کوشش کررہا ہے، اُس کے مؤکل کی یہ چوری پہلی بار نہیں، بلکہ اِس سے پہلے بھی اُس کے خلاف چوری کے مقدمات ، مقامی تھانوں میں درج ہیں، یہ الگ بات ہے کہ مجرم آج تک قانون کی گرفت سے بچتا رہا، اگر آپ کو یقین نہ ہو، تو آپ متعلقہ تھانوں سے انکوائری کرواسکتے ہیں۔نیز وکیلِ دفاع کا یہ کہنا کہ ’’ اُس نے یہ چوری مجبوری میں کی، اور مجبوری میں ممنوع کام جائز ہوتا ہے‘‘ - دونوں باتیں سراسر غلط ہیں، اس لیے کہ مؤکل اپنی چوری میں مجبور نہیں، بلکہ عادی مجرم ہے۔… نیز وکیلِ دفاع کی یہ بات کہ مجبوری میں ممنوع کام جائز ہوتا ہے، … تو میں انہیں مشورہ دوں گا کہ یہ دوبارہ قانون کی تعلیم حاصل کریں، کیوں کہ قانون کی دفعہ’’ اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ‘‘ ضرورتیں ممنوعات کو جائز کردیتی ہیں۔ اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ - مجبور شخص کو دوسرے کی جان و مال کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت ہے۔ نیز جب کوئی کام ضرورتاً جائز ہوتا ہے، تو بقدرِ ضرورت ہی جائز ہوتا ہے،حالانکہ ملزم نے مالکِ مکان کے تمام زیورات اور نقد رقم پر ہاتھ صاف کیا، لہٰذا عدالتِ عالیہ سے درخواست ہے، کہ وہ ملزم کو اس کے جرم کی کَراری سزا دے۔
جـج(وکیل دفاع کی رحم کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے):
آپ کے مؤکل کا چور ہونا ، شرعی شہادتوں سے ثابت ہوچکا، اور چوری کا مال اُس کے نصابِ سرقہ (ساڑھے تین تولہ چاندی یا اُس کی قیمت/ریٹ معلوم کرلیں) سے کئی گُنا زائد ہے، لہٰذا عدالت تمام حاضرین اور گواہوں کی موجودگی