اس کا اخلاقی نقصان بہت زیادہ ہے، اس درجہ کہ انہیں انسانیت ہی سے نکال دیتا ہے ، اور ان کے اس وقتی نفع کی وجہ سے پوری قوم کوعظیم نقصان اور خطرناک معاشی بحران کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
مسئلۂ سود آج پوری انسانیت کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا جارہا ہے ، اور لوگ سودی کاروبار کو معاشی مسئلہ کا حل، اور معاشیات میں اس کو ریڑھ کی ہڈی قرار دے رہے ہیں ، جب کہ یہ معاشیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی نہیں، بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں پیدا ہونے والا ایک خطرناک کیڑا ہے، جو اس کو کھارہا ہے۔
نیز ہم اور آپ جانتے ہیں کہ سود سے؛
(۱)اخلاقی وروحانی گراوٹ ، خود غرضی ، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی پیدا ہوجاتی ہے۔
(۲)سماج اور معاشرہ کا عدمِ استحکام، یعنی آپس میں محبت کی بجائے باہمی بغض، حسد ، بے دردی ، بے تعلقی ، انتشار ، منافرت اور پراگندگی جنم لیتی ہے۔
(۳)قوم وملت کے وہ کام جو انتہائی ضروری اور مفید ہوتے ہیں ، شرحِ سود کے برابر باعثِ نفع نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوکر رہ جاتے ہیں ، اور ملک کے تمام مالی وسائل ان کاموں میں صرف کیے جاتے ہیں،جو بازار کی شرحِ سود کے برابر نفع بخش ہوتے ہیں ، سود خورکو کاروبار کے نفع ونقصان سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی، وہ محض اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ کاروبار مندی کا شکار ہونے جارہا ہے، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے ، جس کی وجہ سے کاروباری کی مندی انتہائی تباہ کن صورت اختیار