ہے کہ حشر میں انسان اسی صورت کے ساتھ اٹھے گا، جس قسم کی سیرت اور خصلتیں دنیا میں اس پر غالب رہی ہو ں گی۔ (تفسیرماجدی)
چوتھی جگہ ارشاد ہے: {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِيْ الصَّدَقٰتِ ، وَاللّٰہُ لا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ} ۔ ’’مٹا دیتا ہے اللہ سود کو اور بڑھادیتا ہے صدقات کو ، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی کفر کرنے، گناہ کا کام کرنے والے کو۔‘‘ (سورۂ بقرہ:۲۷۶)
(اس آیت میں سود اور صدقہ کا موازنہ ہے کہ) سود میں برکت وخیریت برائے نام بھی نظر نہ آئے گی۔ اور صدقات کا اَجر بے حسا ب ملے گا، لیکن دنیا میں بھی اس کا ظہور کسی نہ کسی حد تک ہوتا ہی رہتا ہے، سود خوا رقوموں کا انجام بارہا آپس کی خون ریزی اور تباہی وبربادی ہی پر ہوا ہے، اور افراد میں بھی مشاہدہ ہے کہ سود خوری کی عادت بنیوں، مہاجنوںکے دل میں روپیہ کو فی نفسہٖ محبوب بنادیتی ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سود خور، زر ودولت سے دنیوی لطف بھی نہیں اٹھا پاتا ، اس کے مقابل صدقہ کی برکتیں ، ملی غم خواری و ہم دردی ، ایک دوسرے کی مشارکت ومعاوَنت قوم اور افراد دونوں میں مشاہدہ کی چیزیں ہیں۔ بینکوں کے آئے دن ٹوٹنے ، مہاجنوں اور بنیوں کے دیوالہ نکلتے رہنے، اور پھر اس سے ہزاروں گھروں کی تباہی وبربادی کس نے نہیں دیکھی ہے؟ معاشرہ کی اس ابتری کا راز بھی سودی کاروبارکی ترویج ہے۔ (تفسیر ماجدی)
نیز جوئے کے متعلق ارشادِ باری ہے: {یٰآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} ۔’