ہے کہ ’’سود کو بھی چھوڑدواور اس کے مشابہ چیزوں کو بھی ‘‘، وہ اِسی قرآنی وعید کا قدرتی نتیجہ ہے ، جب جسمانی بیماریوں کا یہ حال ہے کہ کسی مرض کو طبیب اگر سخت مرض سے مشابہ پاتا ہے، تو احتیاطاً علاج اس سخت تر مرض کا شروع کردیتا ہے، تو جو مسلمان تقویٰ کا ادنی درجہ بھی رکھتے ہیں ، اُن پر بھی یہی لازم ہے کہ نہ صرف کھلے ہوئے سود سے بچیں، بلکہ ایسی مالی وکاروباری صورتوں سے بھی احتیاطاً بچتے رہیں، جن کا سودی ہونا مشتبہ ہے۔ (تفسیر ماجدی)
تیسری جگہ ارشاد ہے: {اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لا یَقُوْمُوْنَ إِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِيْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ} ۔ ’’ وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں کھڑے ہونگے قیامت میں قبروںسے، جس طرح کھڑاہوتا ہے ایسا آدمی جس کو شیطان خبطی بنادے لپٹ کر۔‘‘ (سورۂ بقرہ:۲۷۵)
اصل منظر تو یہ قیامت کے دن کا ہے کہ آخرت میں اپنی قبروں سے اٹھنے پر، یہ سود خور سیدھے کھڑے تک نہ ہوسکیں گے، کھڑے ہونگے بھی تو متوالوں، خبطیوں ، دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے لڑ کھڑاتے ہوئے،لیکن اُس کا ایک ہلکا سا رنگ اِسی دنیا ہی میں نظر آجاتا ہے، مہاجن ، ساہوکار جو روپیہ کے پیچھے دیوانہ باؤلا رہتا ہے ، واقعی ایسا معلوم ہوتا ہے اُس کے جن یا بھوت چمٹ گیا ہے، اور اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے اُس پر سود یا بیاج ہی سوار رہتا ہے۔اور جس کی حرص وطمع کی پیاس دنیا میں اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے ۔لازم ہے کہ اس کا حشر بھی اسی مخبوط ، جنون زدہ حالت کے ساتھ ہو۔اہلِ کشف اور محققین کا بیان