والرد: ۷/۳۹۸- ۴۰۱،روح المعانی:۳/۷۹، مکتبہ زکریا)اور جوا؛ یعنی مِلک کو خطرے پر معلق کرنا، درآں حالانکہ دونوں جانب میں مال ہو، شرعاً ناجائز وحرام ہے۔
(معجم لغۃ الفقہاء:ص/۳۶۹، شامی:۹/۵۷۷)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
{اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا} ۔ (سورۂ بقرہ :۲۷۵)
’’اللہ پاک نے خرید وفروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔‘‘
{یٰآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا تَأْکُلُوٓا الرِّبٰوٓا اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً} ۔
’’اے ایمان والو! سود بڑھا چڑھا کر مت کھاؤ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایاگیا: {یٰٓا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوٰٓا إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ} ۔ ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو، تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑدو، پھر اگر ایسا نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘ (سورۂ بقرہ:۲۷۸)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(اس آیت میں اللہ رب العزت ہم سب کو مخاطب بنا کر فرمار ہے ہیں کہ) اگر اس حکم ، یعنی حرمتِ سو د پر عمل نہ کرونگے، تو تم سے باغیوں اور مرتدوں کی طرح لڑائی کی جائے گی، اتنی سخت وعید قرآن مجید میں کسی دوسری معصیت ونافرمانی کے لیے نہیں آئی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے جومنقول