(مولوی محمود اپنی بات جاری رکھتے ہوئے):
میں نے اِن حضرات سے کہا کہ آپ لوگ سود اور جوئے جیسے ناجائز وحرام کام میں مبتلا ہوں، تو اِنہوں نے میری بات کا اعتبار نہیں کیا، اس لیے اِن تمام کو لے کر آپ دامت برکاتہم کی خدمت میںحاضر ہوا ہوں،اب آپ اِنہیں بتائیے کہ جو کام یہ کررہے ہیں، آیا وہ شرعاً ناجائز وحرام ہیں؟ یانہیں؟
مفتی صاحب:
الحمد للّٰہ رب العالمین ، والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین ، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین ، أما بعد !
محترم حضرات !
اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل واحسان ہے کہ ہم اور آپ سب مسلمان ہیں، اور حقیقی معنوں میں مسلمان وہی ہوتا ہے، جو احکامِ اسلام کا پابند ہو، اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ، کوئی بھی کام کرنے سے پہلے وہ یہ جان لے کہ شریعت اِس سلسلے میں کیاکہتی ہے؟ آیا وہ کام جائز ہے یا ناجائز؟ جیسا کہ فقہ کا قاعدہ ہے:
’’ لا یَجُوْزُ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّتَصَرَّفَ أَوْ یَفْعَلَ فِعْلاً إِلَّا بَعْدَ مَعْرِفَۃِ حُکْمِ اللّٰہِ فِیْہِ ‘‘ ۔ (موسوعۃ قواعد الفقہیۃ:۸/۱۵)
آپ حضرات کو چاہیے تھا کہ پہلے حکمِ خداوندی کو معلوم کرتے، پھر کوئی قدم اُٹھاتے ، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، اور گناہ گار ہوئے!کیوں کہ سودیعنی اصل قرضہ پر زیادتی، یا بلا معاوضۂ مال ، مال پر زیادتی، خواہ یہ کم ہو یا زیادہ۔ (تنویر مع الدر