تو بولو ! ابھی تمہارے نام لکھ لیتا ہوں، تاکہ تم بھی اس کمپنی کے ممبر بن کر، آگے اور ممبر بنانا شروع کردو، اور ہاں! بعد میں مت بولنا کہ خبر نہیں تھی ، تمہارے کانوں پے میں نے یہ بات ڈال دی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ؛ شادی کے موقع پر میرے سسرے نے کچھ نقد رقم ہدیہ (سپریم بھیٹ)میں دی تھی،میں نے سوچا ان پیسوں کو گھر میں رکھنے سے یہ ڈبل ہونے والے تو ہیں نہیں، اس لیے وہ پیسے میں نے پانچ سال کے لیے فکس ڈپازٹ میں رکھدیا، چارسال ہوگئے ، یہ پانچواں سال ہے ، وہ جمع کرائی ہوئی رقم اب ڈبل ہوکے میرے کوملے گی۔
حامد میاں(رفیق پٹھان سے): ارے پٹھان صاحب!
آپ بھی تو خیریت سے ہیں نا؟
رفیق پٹھان : میں آپ تمام لوگوں کی باتیں سن رہا تھا، کہ آپ لوگ کس طرح ترقی کی راہ پر چل رہے ہیں؟ میرے نزدیک یہ کوئی ترقی نہیں، ترقی وہ ہے جسے میں نے اپنا رکھا ہے، ترقی کا ایسا راستہ کہ پھٹاک سے آدمی کے پاس پیسے آجاتے ہیں، اور ایک ’’روڈ پتی‘‘ آدمی دیکھتے ہی دیکھتے ’’کروڑ پتی‘‘ بن جاتا ہے، ذرا بھی مغز ماری نہیں کرنا پڑتی۔
سب یک زبان ہوکر پوچھنے لگے: وہ کیا؟؟؟؟؟
رفیق پٹھان : میری پرانی عادت ہے کہ چلتے پھرتے پانچ پچاس روپئے کے لاٹری ٹکٹ خرید لیتاہوں، پھر اخبار میں اپنی لاٹری نمبر دیکھتا رہتا