خدمت پر مجبور نہ کریں، کیوں کہ یہ بالکل جائز نہیں ہے۔
محترم ساجد صاحب ! آپ کی تمام پریشانیوں کا حل یہی ہے کہ آپ اپنی بیوی کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرو، اس سے آپ کو بھی سکون ملے گا، آپ کی بیوی بھی چین سے رہے گی، اور والدین وبہنوں کا ٹینشن بھی ختم ہوگا۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ میرے اِس عمل سے والدین ناراض ہوں گے،معاشرے میں آپ کے متعلق طرح طرح کی باتیں ہوں گی،ملامت کی جائے گی ، بدنام کیا جائے گا، ’’جورو کے غلام‘‘ جیسی بھپتیاں آپ پر کسی جائیں گی،یا آپ والدین کی نافرمان اولاد کہلاؤگے، کیوں کہ الگ رہ کر، راحت کا ملنا اور نیک نامی کا حاصل ہونا ، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، مگر راحت نیک نامی سے زیادہ ضروری ہے۔رہی والدین کی خدمت! تو جو کچھ ہوسکے اپنی کمائی سے والدین کی خدمت کرتے رہے، اسی طرح جائز اور نیک کاموں میں اُن کی اطاعت وفرماںبرداری کی جائے۔البتہ والدین کے ہر ایسے حکم کی بجا آوری شرعاً درست نہیںہے ، جس میں خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے : ’’ لا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ‘‘ ۔ لہٰذا بیوی کے مطالَبے پر اُس کے لیے علیحدہ مکان کا انتظام کرنا، شوہر پر واجب ہے، اور واجب کا ترک کرنا معصیت ہے، اگر والدین اِس معصیت کا حکم دیں ، او ریہ کہیں کہ بیوی کوعلیحدہ مکان مت دے، تواُن کی بات نہیں مانی جائے گی۔ (تحفۂ زوجین:ص/۲۰)
حکیم الامت ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص تعویذ لینے آیا کہ اُس کی بہو اُس کی اطاعت نہیں کرتی، حضرت نے فرمایا :
’’ اس کا تعویذ یہی ہے کہ اس کو اور اپنے لڑکے کو جدا کردو، پھر نہایت درجہ مطیع