ہوجائے گی۔‘‘ (یعنی میاں بیوی کو اپنے سے علیحدہ مکان دے کر اُس میں رکھو)
اسی طرح ایک ہندو نے اپنے بیٹے اور بہو کی شکایت کی ، وہ بہت تنگ کرتے ہیں، بہو کام کرکے نہیں دیتی، بیٹا بھی پریشان کرتا ہے، حضرت نے اس سے فرمایا:
’’ اس کا علاج یہ ہے کہ ان کو الگ کردو، وہ الگ رہیں اور تم الگ ، بس سب ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ کہ نکاح کے بعد بہو کو اس کے مطالَبے پر علیحدہ مکان دے دینا چاہیے، ساتھ رہنے پر اصرار کرنا بہت سی خرابیوں اور جھگڑے فساد کی جڑ ہے، جس سے نہ صرف بہو بیٹے، بلکہ پورے خانوادہ کا چین وسکون تباہ وبرباد ہوجاتا ہے،اور آدمی یہ سوچنے لگتا ہے کہ کاش میرا نکاح ہی نہ ہوتا، کہ نکاح کے بعد موجودہ سکون بھی تباہ وبرباد اور غارت ہوگیا، جیسا کہ آپ سوچ رہے ہیں۔
ساجد: شکریہ مفتی صاحب!
آپ نے اپنا قیمتی وقت دے کر ،نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متعلق میرے شکوک وشبہات کو دور فرمایا ، بلکہ ہمارے پورے خانوادہ کے لیے چین وسکون کی راہ بھی متعین کردی، ان شاء اللہ !اب ہم اِسی راہ پر چل کر زندگی کے حقیقی چین وسکون سے لطف اندوز ہونے کی از سرِ نو کوشش کریں گے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !