اور ان حضرات کا طرزِ عمل بھی یہی تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی تو وہ صاحبین کے قول کو ترجیح دیتے ہی، اور کبھی صاحبین میں سے کسی ایک کے قول کو، اور سترہ مسائل میں تو انھوں نے امام زفر ؒ کے قول کو تر جیح دی ہے، جن کو علامہ بیری ؒ نے ایک رسالے1 میں جمع کیا ہے، اور سیدی احمدحموی ؒ کی ان مسائل کے بارے میں ایک نظم 2 ہے۔ لیکن اس نظم کے بعض مسائل پر اعتراض وارد ہوتا ہے 3 کیوں کہ وہ امام زفر کے مخصوص مسائل نہیں ہیں، اور میں نے بھی ان مسائل میں ایک نفیس نظم لکھی ہے، اس میں وہ مسائل نہیں لیے جوقابل اعتراض تھے، اور حموی کی نظم پر میں نے چند مسائل کا اضافہ کیاہے۔ (اس نظم میں مسائل کی مجموعی تعداد بیس ہے) یہ نظم میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار، باب النفقۃ ۲/۷۲۶ میں ذکر کی ہے۔
اعتراض وجواب: علامہ ابنِ نجیم ؒ البحرالرائق، کتاب القضاء ۶/۲۶۹ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’پس اگر کوئی شبہ کرے کہ مشایخ کے لیے مقلد ہوتے ہوئے یہ کیسے جائز ہوگیا کہ وہ امام اعظم ؒ کے علاوہ دوسرے کے قول پر فتویٰ دیں؟ تو میں کہوں گا کہ یہ اشکال خودمجھے عرصہ تک رہاہے، میری سمجھ میں اس کا کچھ جواب نہیں آتا تھا، مگر اب اکابر کے کلام سے ایک جواب میری سمجھ میں آیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ علما نے ہمارے ائمہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ’’کسی کے لیے جائز نہیں کہ ہمارے قول پر فتویٰ دے جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ ہم نے کہاں سے بات کہی ہے‘‘۔
اور فتاویٰ سراجیہ میں تو یہاں تک منقول ہے کہ عصام بن یوسف 1 جو امام اعظم کے خلاف فتویٰ دیتے تھے تو اس کا سبب یہی تھا، وہ بکثرت امام صاحب کے قول کے خلاف فتویٰ دیتے تھے، کیوں کہ ان کے علم میں امام صاحب کے اقوال کی دلیل نہیں ہوتی تھی، اور دوسروں کے اقوال کی دلیل ان کے لیے واضح ہوتی تھی، اس لیے وہ دوسروں کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔
(جواب کا حاصل یہ ہے کہ حنفی کے لیے امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر فتویٰ دینا ضروری ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کو امام صاحب کے قول کی دلیل معلوم ہو، ورنہ دوسرے کے قول کو اختیار کرے گا، پس جو مشائخ امام صاحب کے علاوہ دوسرے کے قول پر فتویٰ دیتے تھے تو اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ان کو امام صاحب کے قول کی دلیل معلوم نہیںہوتی تھی )۔