فَقَوْلُ یَعْقُوْبَ ھُوَ الْمُخْتَارْ
اور جہاں امام اعظم ؒ نے کوئی قول اختیار نہ کیا ہو، (یعنی کسی مسئلے میں ان کا کوئی قول موجود نہ ہو) تو امام ابویوسف ؒ ہی کا قول مختار ہے۔
۲۷
ثُمَّ مُحَمَّدٍ فَقَوْ لُہُ الْحَسَنْ
ثُمَّ زُفَرَ وَبْنِ زِیَادِ الْحَسَنْ
پھر امام محمد ؒ ہی کا قول پسند یدہ ہے۔ پھر امام زفر اور حسن بن زیاد ؒ کے اقوال مختار ہیں۔
۲۸
وَقِیْلَ بِالتَّخَیِیْرِ فِي فَتْوَاہ
إِنْ خَالَفَ الإِْمَامَ صَاحِبَاہ
اور کہا گیا کہ مفتی کو فتویٰ دینے کا اختیار ہے اگر صاحبین امام صاحب کے خلاف ہوں۔
۲۹
وَقِیْلَ مَنْ دَلِیْلُہُ أَقْوَی رُجِّحْ
وَذَا لِمُفْتٍ ذِی اِجْتِھَادٍ الْأَصَحْ
اور کہا گیا کہ جس کی دلیل قوی تر ہو اس کے قول کو تر جیح دی جائے گی۔ اور یہ بات مجتہد مفتی کے حق میں زیادہ صحیح ہے۔