وفکر کرے، اور اس کے نزدیک جوبات راجح ثابت ہو اس کو لے، اور مقلد (محض) آخری تصنیف کو لے، اور آخری تصنیف سیرِ کبیر ہے، البتہ اگر مشائخِ متاخرین نے آخری تصنیف کے بر خلاف قول کو اختیار کیا ہو تو پھر اسی پر عمل واجب ہے، چاہے وہ امام زفر ؒ ہی کا قول کیوں نہ ہو۔ ‘‘
۲۰
وَیَجْمَعُ السِّتَّ کِتَابُ الْکَافِيْ
لِلْحَاکِمِ الشَّھِیْدِ فَھُوَالْکَافِيْ
اور اصولِ ستہ کو کتاب الکافی جمع کرتی ہے۔ جوحاکم شہید ؒ کی ہے، پس وہی کافی ہے۔
۲۱
أَقْوٰی شُرُوْحِہِ الَّذِيْ کَالشَّمْسِ
مَبْسُوْطُ شَمْسِ الْأُمَّۃِ السَّرَخْسِيْ
اس کی نہایت عمدہ شرح جو سورج کی طرح ہے شنمس الائمہ سرخسی ؒ کی مبسوط ہے۔
۲۲
مُعْتَمَدُ النَّقُوْلِ لَیْسَ یُعْمَلْ