Deobandi Books

آپ فتوی کیسے دیں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

42 - 145
پہلادرجہ: مسائل الاصول کا ہے جن کو ظاہرِ روایت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ائمہ مذہب یعنی امام اعظم اور صاحبین   ؒ سے مروی ہیں۔ ان تین حضرات کو ائمہ ثلاثہ کہاجاتا ہے، اور گا ہے ان کے ساتھ امام زفر 2 اور امام حسن بن زیاد 3 وغیرہ کو بھی ملالیا جاتاہے۔ جنہوں نے امام اعظم سے پڑھاہے۔ مگر عام طور پر ظاہرِ روایت کی اصطلاح ائمہ ثلاثہ کے اقوال کے لیے یا ان میں سے بعض کے اقوال کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ 
اور ظاہرِ روایت کے مسائل اور اصول کے مسائل وہ ہیں جو امام محمد   ؒ کی چھ کتابوں میں مذکور ہیں۔ یعنی (۱)مبسوط (۲) زیادات (۳) جامعِ صغیر (۴) سیرِ صغیر (۵) جامعِ کبیر اور (۶) سیرِ کبیر میں۔ اور ان کو ظاہرِ روایت اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ امام محمد   ؒ سے قابلِ اعتمادراویوں کے ذریعے منقول ہیں، یعنی یہ مسائل امام محمد   ؒ سے تواتریا شہرت کے ساتھ منقول ہیں۔ 
دوسرادرجہ: مسائل النوادر کا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جومذکورہ بالا ائمہ مذہب ہی سے مروی ہیں، مگر وہ مذکورہ بالا کتابوں میں مذکور نہیں ہیں، بلکہ: 
۱۔ یاتو امام محمد کی ان چھ کتابوں کے علاوہ دوسری فقہی کتابوں میں مذکور ہیں، جیسے کیسانیات، ہارونیات، جرجانیات، اور رقیات میں 1 اور ان مسائل کو غیر ظاہر الروایۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مسائل مذکورہ بالا کتابوں کے مسائل کی طرح امام محمد   ؒ سے صحیح ثابت اور مشہور روایت سے مروی نہیں ہیں۔ 
۲۔ یا وہ مسائل امام محمد   ؒ کے علاوہ دیگر تلامذئہ امام اعظم کی کتابوں میں مذکور ہیں، مثلاً امام حسن بن زیاد کی کتاب المجرد میں، اور اس کے علاوہ دوسری کتابوں میں، امام ابویوسف   ؒ کی امالی میں جومسائل مذکور ہیں وہ بھی اسی قسم میں شامل ہیں۔ 
فائدہ: امالی جمع ہے املا کی، جس کے معنی ہیں لکھانا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی عالم بیٹھ جاتا، اور اس کے گرد اس کے تلامذہ قلم، دوات اور کا غذ لے کر بیٹھ جاتے۔ اﷲتعالیٰ اس عالم کے دل میں جو کچھ ڈالتا وہ زبانی لکھواتا۔ پھر وہ کاپیاں جمع کر لی جاتیں تو ایک مستقل کتاب بن جاتی۔ یہ طریقہ املا یا امالی کہلاتا تھا۔ سلف میں محدثین، فقہا اور ادباوغیرہ سب ہی یہ طریقہ اختیار کرتے تھے اور اپنی اپنی لائن کے علوم لکھوا تے تھے، اب نہ وہ علما رہے اور نہ وہ علم ہی رہا، اس لیے املا کا یہ طریقہ بس قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ شوافع کی اصطلاح میں اس کو تعلیقتاً کہاجاتاہے۔ 
۳۔ یا ان مسائل کو امام محمد  ؒ کا کوئی ایک شاگرد روایت کرتا ہے، جیسے ابنِ سماعہ اور معلی بن منصور 1 وغیرہ کے روایت کردہ مخصوص مسائل۔ 
تیسرادرجہ: فتاویٰ اور واقعات 2 کا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کو بعد کے مجتہدین نے اس وقت مستنبط کیا ہے جب ان سے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 مرجوح قول پر نہ فتویٰ دینا جائز ہے نہ عمل کرنا 21 1
3 یہ مسئلہ اجماعی ہے 21 2
4 طبقاتِ فقہا 23 1
5 فتویٰ دینے سے پہلے تحقیق ضروری ہے 26 4
6 ایک آدھ کتاب دیکھ کریاغیرواضح کتابوں سے فتویٰ دیناجائزنہیں 27 4
7 ضعیف کتابیں 27 4
8 حوالے کی تحقیق ضروری ہے اورحوالے میں غلطی کی مثالیں 28 4
9 طا عات پر اجارہ اور ایصالِ ثواب کے لیے اجرت پر قرآن خوانی کرانے کا عدمِ جواز 29 4
10 سببِ تسامح 33 4
11 حاشیہ شامی کی خوبی 33 4
12 متاخرین کی کتابوں میں بھی تسامحات ہیں 33 4
13 محض مطالعہ سے فتویٰ دینا جائز نہیں 34 4
14 فتویٰ دینے کے لیے کیا صلاحیتیں ضروری ہیں 34 4
15 نا اہل مفتی کی سزا 34 4
16 فتویٰ ظاہرِ روایت پر دینا چاہیے 34 4
17 ظاہر الروایہ کی ترکیب 35 4
18 اصول کے معنی 36 4
19 جامعِ صغیر کا تعارف 36 4
20 جامعِ کبیرکا تعارف 37 4
21 صغیر وکبیر میں فرق 37 4
22 سیرِ صغیر وکبیر کا تعارف 38 4
23 زیادات اور زیادات الزیادات کاتعارف 38 4
24 کتاب الاصل (مبسوط) کا تعارف 39 4
25 کتبِ نوادر کا تعارف 40 4
26 کتبِ نوازل کا تعارف 40 4
27 اصحاب اور مشائخ میں فرق 41 4
28 متقدمین اور متاخرین کی تحدید 41 4
29 سلف اور خلف سے مراد 41 4
30 طبقات المسائل 41 4
31 مبسوط کے نسخے اور شروح 43 4
32 روایت الا صول اور ظاہر الروایہ میں کوئی فرق نہیں 44 1
33 علامہ ابنِ کمال پاشا پررد 44 32
34 سِیَرْ کے معنی 45 32
35 اصول اور غیر اصول کی روایتیں 47 32
36 جامعِ صغیر کی وجہ تصنیف 48 32
37 جامعِ صغیر کا تعارف 48 32
38 صغیر وکبیر میں فرق 48 32
39 متفق علیہ مسائل 49 32
40 سیرِ کبیر کی وجہ تصنیف 49 32
41 حاکم شہید ؒ کی کافی 51 32
42 مبسوط سرخسی کا مرتبہ 51 32
43 فقہ حنفی کی مبسوطیں 52 32
44 حاکم شہید اور کافی 52 32
45 متعدد شمس الائمہ 53 32
46 القاب میں مبالغہ 53 32
47 مجتہد کے مختلف اقوال اور ضابطہ ترجیح 55 32
48 اختلافِ اقوال اور اختلافِ روایات میں فرق 56 32
49 اختلافِ روایات کے چار اسباب 57 32
50 اقوال وروایات میں فرق پراعتراض 57 32
51 اختلافِ روایت کے دو اور سبب 58 32
52 راجح قول ہے اور مرجوح روایت 58 32
53 عدمِ تر جیح کی صورت میں دونوں ہی قول ہیں 58 32
54 رجوع کے بعد قول باقی نہیں رہتا 59 32
55 رجوع سے اختلاف ختم نہیں ہوتا 59 32
56 کیاتعاضِ ادلہ اختلافِ اقوال کاسبب ہو سکتاہے 59 32
57 علامہ شامی ؒ کی رائے 60 32
58 تلامذہ کے اقوال بھی امام صاحب کے اقوال ہیں 61 32
59 صحیح حدیثیں بھی امام صاحب کے اقوال ہیں 62 32
60 حدیث پر عمل کے لیے اہلیت شرط ہے 63 32
61 مذہب کے دائرے میں رہنا ضروری ہے 63 32
62 وہ مسائل جوتو سعاً مذہب میں شامل ہیں 64 32
63 مستزاد مسائل کے لیے مناسب تعبیر 65 32
64 اقوالِ تلامذہ اقوالِ امام ہونے کی دلیل 65 32
65 تخریجی مسائل اقوالِ تلامذہ کی بہ نسبت مذہب سے قریب تر ہیں 66 32
66 مختلف فیہ مسائل میں کس کے قول پر فتویٰ دیا جائے 68 32
67 تائیدات 69 32
68 صورتِ دوم کی مزید تفصیل 71 32
69 صورتِ دوم کے حکم پر اعتراض 71 32
70 تائیدی حوالے 71 32
71 مجتہد سے مراد 73 32
72 مفتیانِ زمانہ کا حکم 74 32
73 کیا فتویٰ دینے کے لیے مفتی بہ قول کی دلیل معلوم ہونا ضروری ہے 76 32
74 غیرمجتہد مفتی صرف ناقلِ فتاویٰ ہوتاہے 77 1
75 رملی کا ابنِ نجیم پر رد 77 74
76 مشائخ امام اعظم کے دلائل سے بخوبی واقف تھے 78 1
77 رملی کے ردکی وضاحت اور مزید رد 78 76
78 حتی یعلم من أین قلنا کا پہلا مطلب 79 76
79 مصداقِ خاص 79 76
80 قولِ امام کا دوسرا مطلب 81 76
81 مجتہد فی المذہب کون ہے 83 76
82 امام ابن الہمام ؒ کامرتبہ 84 76
83 علامہ قاسم کا مقام 84 76
84 ابنِ نجیم کا مقام 85 76
85 متقدمین سے روایت نہ ہو اور متاخرین میں اختلاف ہوتو کیا کیا جائے 87 76
86 متاخرین کا بھی کوئی قول نہ ہو تو کیا کیا جائے 87 76
87 فتویٰ میں صریح حوالہ ضروری ہے 88 76
88 صریح جزئیہ نہ ملنے کی وجہ 89 76
89 نظیر سے فتویٰ نہ دیا جائے 89 76
90 قواعدِ کلیہ سے بھی فتویٰ دینا جائز نہیں 89 76
91 نظیرسے فتویٰ دینا کہاں جائز ہے 89 76
92 عبادات میں امام اعظم کا قول مفتی بہ ہے 94 76
93 امام اعظم کے کیا کہنے 94 76
94 قضا کے مسائل میں امام ابویوسف کا قول مفتی بہ ہے 94 76
95 مسائل ذوی الارحام میں امام محمد کاقول مفتی بہ ہے 95 76
96 استحسان کوقیاس پر ترجیح حاصل ہے 95 76
97 ظاہرِ روایت پر فتویٰ دینا ضروری ہے 96 76
98 اختلافِ روایات کے وقت درایت(دلیل) کا لحاظ 96 76
99 کفر کے فتویٰ میں احتیاط لازم ہے 96 76
100 مرجوع عنہ قول منسوخ قول ہے 97 76
101 کسی قول کامتون میں ہونا اس کی ضمنی تصحیح ہے 97 76
102 متون، شروح اور فتاویٰ کی درجہ بندی 98 76
103 فتاویٰ قاضی خان اور ملتقی الابحر کا طریقہ 100 76
104 ہدایہ،بدائع، شروحِ ہدایہ وشروحِ کنز کا طریقہ 100 76
105 درمیانی قول راجح نہیں ہوتا 101 76
106 جوقول مدلل کیا گیا ہو وہی راجح ہے 101 76
107 تصحیحِ مسائل کی اصطلاحات اور ان کے مراتب 103 76
108 صحیح اور أصح میں زیادہ مؤکد کون ہے 103 76
109 خلاصۃ المرام 104 76
110 تصحیح کو ترجیح دینے کی دس صورتیں 108 76
112 مفہوم اور اس کی اقسام 111 1
113 مفہومِ موافق 111 112
114 مفہوم مخالف 112 112
115 مفہوم صفت 112 112
116 مفہومِ شرط 112 112
117 مفہومِ غایت 112 112
118 مفہوم عدد 112 112
119 مفہوم لقب 112 112
120 مفہوم کا حکم 112 112
121 بول چال، معاملات اور عقلیات میں مفہومِ مخالف معتبر ہے 113 112
122 عبارات فقہیہ اور اقوالِ صحابہ میں مفہومِ مخالف معتبر ہے 113 112
123 باہمی گفتگو میں مفہومِ مخالف معتبر ہونے پر اعتراض 114 112
124 نصوصِ شرعیہ میں مفہومِ مخالف اور امام محمد ؒ 115 112
125 مفہومِ مخالف اس وقت حجت ہے جب وہ صراحت کے خلاف نہ ہو 118 112
126 عرف کی تعریف 118 112
127 عادت کی تعریف 118 112
128 عرف و عادت کا اعتبار 118 112
129 اعتبار عرفِ عام اور عادتِ غالبہ کا ہے 119 112
130 عرف سے ثابت حکم کا درجہ 119 112
131 عرف بدلنے سے احکام بدلتے ہیں 119 112
132 مفتی کا بابصیرت واقفِ عرف ہونا ضروری ہے 122 112
133 فتویٰ میں مصلحت کا لحاظ ضروری ہے 123 112
134 مفتی کے لیے لوگوں کے احوال کا جاننا ضروری ہے 123 112
135 عرف خلافِ شرع نہ ہوتو فتویٰ میں اس کالحاظ ضروری ہے 124 112
136 عرفِ عام، عرفِ خاص اور ان کے احکام 125 112
137 عرف کی بحث تشنہ ہے 127 112
138 ضعیف قول پر عمل اور فتویٰ 130 112
139 شرنبلالی پر اعتراض 130 112
140 علامہ سبکی پر اعتراض 130 112
141 بوقتِ ضرورت احناف کے نزدیک بھی ضعیف قول پر عمل جائز ہے 131 112
142 ملحق بالضرورۃ 132 112
143 بیری کی بات اور اس کی تاویل 132 112
144 ضعیف قول پر یا مذہبِ غیر پر فیصلہ جائز نہیں 134 112
145 خاتمہ 137 1
Flag Counter