ہیں، اوران اصول کے مآخذسے بھی واقف ہوتے ہیں اس لیے صاحبِ مذہب سے یاان کے کسی مجتہدشاگردسے منقول کسی ایسے قول کی جو مجمل اور ذو وجہین ہوتا ہے، یاکسی ایسے حکم کی جس میں دو احتمال ہوتے ہیں، اپنی خداداد صلاحیت سے اور اپنے امام کے اصول پیشِ نظر رکھ کر اور نظائر وامثال پرقیاس کر کے تفصیل وتعیین کرسکتے ہیں۔ ہدایہ میں جو کہیں کہیںآتا ہے کہ کذا في تخریج الکرخي اور کذا في تخریج الرازي، اس کا یہی مطلب ہے، یعنی امام کرخی اور امام جصاص رازی نے ان مسائل کی تفصیل کی ہے۔
پانچواںطبقہ: اصحابِ تر جیح کا ہے۔ یہ حضرات بھی مقلد ہوتے ہیں۔ ان میں بھی اجتہاد کی مطلق صلاحیت نہیں ہوتی۔
جیسے قدوری 1 صاحبِ ہدایہ اور انہی جیسے دوسرے حضرات۔ ان فقہا کا کام مختلف روایتوں میں سے کسی ایک روایت کوترجیح دینا ہے۔ جس کے لیے عام طورپر یہ تعبیراختیارکی جاتی ہے۔ ۱: ھذاأولیٰ (یہ بہترہے) ۲: ھذا أصح روایۃ (اس کی روایت زیادہ صحیح ہے) ۳: ھذا أوضح (یہ دلائل کے اعتبار سے زیادہ واضح ہے) ۴: ھذاأوفق للقیاس (یہ قیاس سے زیادہ ہم آہنگ ہے) ھذا أوفق للناس (اس میں لوگوں کے لیے زیادہ سہولت ہے)
چھٹاطبقہ: اصحابِ تمییز کا ہے۔ یہ حضرات بھی مقلدہوتے ہیں، مگر اقویٰ، قوی اور ضعیف کے درمیان امتیازکرسکتے ہیں۔ نیز ظاہرِ روایت، ظاہرِ مذہب اور روایتِ نادرہ کے درمیان فرق کرسکتے ہیں۔ مثلاً متونِ معتبرہ 2 کنز، مختار، وقایہ اور مجمع کے مصنفین۔ ان حضرات کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوںمیں مردود اقوال اور ضعیف روایتیں نقل نہ کریں۔
ساتواںطبقہ: ان فقہا کاہے جومقلدمحض ہوتے ہیں، اور جو مختلف اقوال میں تمیز بھی نہیں کرسکتے ہیں، نہ کار آمد اور نکمے درمیان امتیاز کر سکتے ہیں، نہ دائیںبائیں میں فرق کرسکتے ہیں، بلکہ جوکچھ مل جاتاہے سب اپنی کتابوں میں جمع کرلیتے ہیں۔ ان کاحال رات میں لکڑیاں چننے والے جیسا ہے، اور ان لوگوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو ان کی تقلید کر تے ہیں (ابنِ کمال پاشا کی عبارت پوری ہوئی 1 ، درمیان سے کچھ عبارت چھوڑ بھی دی گئ ہے اور سلسلے میں2 مزید گفتگو آگے آئے گی)۔
فائدہ: علا مہ ابنِ کمال پاشا نے فقہا کی جودرجہ بندی کی ہے اس کوتو علما نے
بہ نظرِ استحسان دیکھا ہے 1 ۔ مگر ہر طبقے کی جو مثالیں دی ہیں اس میں مناقشہ کیا ہے۔ مثلاً:
۱۔ صاحبین کوطبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔ حالاں کہ یہ دونوں حضرات مجتہدِ مطلق کے درجے کی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ مولانا عبدالحی لکھنوی ؒ 2 نے شرح وقایہ کے حاشیے عمدۃ الرعایۃ کے مقدمے میں اس اشکال کا یہ جواب دیا ہے کہ: