مالکیہ میں سے علامہ باجی 5 نے مفتی کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے اورعلامہ
قرافی 1 کے کلام سے تو یہ مفہوم ہوتاہے کہ قاضی اورمفتی کے لیے خواہ مجتہدفی المذہب ہوں یا مقلد محض جائز نہیں ہے کہ غیرراجح قول کے مطابق فیصلہ کریں یا فتویٰ دیں۔ کیوںکہ ایسا کرنا خواہش کی پیروی کرنا ہے جو بالاجماع حرام ہے۔
اور مجتہدفی المذہب کے بارے میں علامہ قرافی کی بات کامصداق وہ صورت ہے جب دلائل میں تعارض نہ ہو یا تعارض ہو، مگرترجیح ممکن ہو۔ اور اگر کسی مسئلے میںدلائل ایسے متعارض ہوں کہ کسی طرح ترجیح ممکن نہ ہوتواس وقت مجتہد مقلدکے لیے دوقولوںمیںسے کسی بھی قول پربالاجماع فیصلہ کرنا اور فتویٰ دینا درست ہے۔‘‘ (فتاویٰ کبریٰ کی عبارت پوری ہوئ)
اورامام محقق علامہ قاسم بن قطلوبغا 2 اپنی کتاب تصحیح القدوری کے شروع میں تحریر فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے ائمہ ثلاثہ کے متبعین میں ایسے لوگ اپنی آنکھوںسے دیکھے ہیں جو خواہشات پرعمل پیرا تھے۔ یہاں تک کہ میں نے بعض قاضیوں کے منہ سے یہ بات سنی ہے کہ اس میں یعنی کسی بھی قول کو لے لینے میںکیاحرج ہے؟ میں نے جواب دیاکہ ہاں!خواہش کی پیروی حرام ہے، اور راجح کے مقابلے میں مرجوح کالعدم ہے اورکسی مرجح کے بغیرمتعارض اقوال میں تر جیح ناجائزہے۔ ‘‘اورابن سید الناس یعمری 3 نے کتاب الاصول میں لکھا ہے کہ:
جسے معلوم نہیںکہ دوقولوں میں سے اوردووجہوںمیں سے کون سا قول اورکون سی وجہ مشہورہے تو اس کے لیے خواہش کی پیروی کرنااورترجیح میں غورکیے بغیرکسی بھی قول یاوجہ پر فیصلہ کرنا جائز نہیںہے۔‘‘
اور امام ابوعمروبن الصلاح آداب المفتی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
یہ با ت جان لیجیے کہ جوشخص ترجیح میںغورنہیں کرتا، اورمحض اتنی بات پراکتفاکرتاہے کہ اس کا فتویٰ یاعمل کسی بھی قول یا کسی بھی وجہ کے مطابق ہوجائے اوروہ مختلف اقوال ووجوہ میں سے جس پر چاہتا ہے عمل کرتاہے تووہ نادان ہے اور خرقِ اجماع کرتا ہے۔ ‘‘