۱۴۱۲ھ کی بات ہے، میرے بڑے لڑکے مفتی رشید احمد قدس سرہٗ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کے طالب علم تھے۔ انہوں نے مجھ سے علامہ شامی قدس سرہٗ کی ’’شرح عقود رسم المفتی‘‘ پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، چناں چہ سبق شروع کیا گیا تو وہ تقریر لکھنے لگے۔ کتاب چوں کہ خود ہی مفصل تھی اس لیے تقریر کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی، ترجمے ہی سے کام چل جاتا تھا، اس لیے میں روزانہ سبق کا ترجمہ کر کے ان کو دے دیا کر تا تھا، وہ صاف کر لیتے، سبق میں کوئی زائدبات آجاتی تووہ اس کو بھی شامل کر لیتے، اس طرح کتاب مکمل ہوگئی تومیںنے اس کی تبییض شروع کی۔ آدھا کام ہو پایا تھا کہ کسی وجہ سے سلسلہ رک گیااوروہ موادآںعزیزکے پاس پڑا رہا۔
۴شوال۱۴۱۵ھ مطابق۶مارچ۱۹۹۵ء کوآںعزیزایک ضرورت سے مظفرنگر گئے، واپسی میںان کی گاڑی میںحادثہ پیش آیااورتقریباًتیس آدمی شہیدہوگئے۔ ۵ شوال کوظہر کی نماز کے بعد دارالعلوم میں ایک بڑے مجمع نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھ کر قبرستانِ قاسمی میں حضرت مولانا شریف الحسن صاحب دیو بندی قدس سرہٗ شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند کے پہلو میں مولانا کے حوالے کردیا۔ میں اس وقت لندن میں تھا۔ فوراً ہی مجھے فون سے اطلاع دی گئی، مگر مجھے جہاز صبح دس بجے مل سکااور دوسرے دن صبح دیو بند پہنچ سکا، اس جان کاہ حادثے نے چند روز کے لیے دنیاو ما فیھا سے بے خبر کر دیا، مگر بہت جلد مولائے کریم نے سنبھال لیااور سابقہ حالت عود کر آئی تو سوچا کہ جومسودہ ان کے پاس محفوظ ہے اس کی تبییض مکمل کر لوں، احباب کا بھی بہت اسرار تھا، مگر میں اپنے مشا غل کی وجہ سے تکمیل نہیںکر پا رہا تھا ۔ ارادہ ایک مبسوط مقدمہ لکھنے کا بھی تھا، مگر اب طبیعت اس کے لیے آما دہ نہیں ہے۔ اس لیے سوچا کہ کتاب جس حال میں ہے اسی طرح طبع کر دی جائے، ان شاء اﷲ یہ بھی طلبہ کرام کے لیے کار آمد ثابت ہو گی۔
میںنے اس کتاب میں ’’رسم المفتی ‘‘کا اکثر جگہ تو ضیحی تر جمہ کیا ہے، کسی جگہ عبا رت دقیق تھی تو لفظی تر جمہ کیا ہے جہاںتشریح یا تلخیص کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں وضاحت کی ہے ٗ کتاب میں عنا وین لگا دیے ہیں۔ کتاب میں جن علما کا یا ان کی کتا بوں کا تذکرہ آیا ہے ان کا آخر میں تعا رف دیا گیا ہے اور اس کے لیے مسلسل نمبر استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی عبارت شامل اشا عت نہیں کی ہے، صرف عربی اشعار لیے ہیں، طلبہ اصل کتاب سے ملا کر استفادہ کریں، سرِدست شکستہ دل کے سا تھ جو کچھ بن پڑا پیش کیا جا رہا ہے۔
سپر دم بتو مایۃ خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را