تھا، تو وہ نافذ ہوجائے گا اور کسی اور کو اس کے توڑنے کا حق نہیں ہے، اور وہ خود اس فیصلے کو توڑ سکتا ہے، امام محمد ؒسے ایسا ہی مروی ہے، او رامام ابویوسف ؒ فرماتے ہیں کہ وہ خود بھی اس کو نہیں توڑسکتا۔‘‘
لیکن قنیہ میں محیط وغیرہ سے جوبات منقول ہے وہ یہ ہے کہ :
’’روایتوں میں اختلاف مجتہد قاضی کے بارے میں ہے جب وہ اپنی رائے کے خلاف فیصلہ کرے، اور مقلد قاضی جب اپنے مذہب کے خلاف فیصلہ کرے تووہ نافذ نہیں ہوگا۔
اورمحقق ابن الہمام ؒ نے فتح القدیر میں اور ان کے تلمیذ علامہ قاسم ؒ نے تصحیح القدوي میں قطعیت سے یہی رائے بیان کی ہے، اور النہر الفائق میں کہا ہے کہ:
’’فتح القدیر میںجوبات ہے اس پر مذہب میں اعتماد کرنا واجب ہے، اور جوبات فتاویٰ بزازیہ میں ہے وہ اس پر محمول ہے کہ وہ صاحبین کی روایتیں ہیں۔ پس غایتِ امر 1 یہ ہے کہ یہ قاضی اپنا مذہب بھولنے والے قاضی کی جگہ میں اتاراہوا ہے، اورپہلے مجتہدقاضی کے بارے میں صاحبین کا یہ قول گزرچکا ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔ پس مقلد قاضی کا فیصلہ بدرجہ اولیٰ نافذ نہ ہوگا۔‘‘
اور درِ مختار (ج۱/۵۶) میںفر مایا ہے کہ:
’’میں کہتا ہوں کہ خاص طور پر ہمارے زمانے میں، کیوں کہ بادشاہ اپنے منشور میں صراحتاً قاضی کو ضعیف اقوال پر فیصلہ کرنے کی ممانعت کردیتا ہے، پس وہ اپنے مذہب کے خلاف کیسے فیصلہ کر سکتا ہے؟ وہ اپنے مذہب کے غیر معتمد اقوال کے تعلق سے معزول سمجھا جائے گا۔ اس لیے اس کا فیصلہ اس بارے میں نافذ نہ ہوگا، اور وہ فیصلہ توڑدیا جائے گا، جیسا کہ فتح ،بحر، نہر وغیرہ کتابوں میںقضا کی بحث میں اس مسئلے کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔‘‘
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ آپ یہ بات بھی جان چکے ہیں کہ مرجوح قول راجح قول کے مقابلے میں کالعدم ہے، اس لیے قاضی مرجوح قول پر فیصلہ نہیں کرسکتا، اگر چہ سلطان نے اپنے منشور میںراجح قول پر فیصلہ کرنے کی صراحت نہ کی ہو، او رعلامہ قاسم ؒ کے فتاویٰ میںہے کہ :
’’مقلد قاضی کے لیے ضعیف قول پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ اہلِ ترجیح میں سے نہیں ہے۔ پس وہ صحیح قول سے عدول کسی نامناسب مقصد ہی کے لیے کرے گا، اوراگر کوئی قاضی فیصلہ کردے تووہ نافذ نہ ہوگا، کیوں کہ اس کا وہ فیصلہ ناحق فیصلہ ہے، کیوںکہ حق صحیح قول ہی ہے، اور وہ بات جومنقول ہے کہ ضعیف قول فیصلے کی وجہ سے قوی ہو جاتا ہے تواس سے مراد مجتہد کافیصلہ ہے، جیسا کہ اس کی وضاحت اپنی جگہ میں کی گئی ہے۔ یہ جواب اس کی تفصیل کا متحمل