البتہ قاضی ضعیف قول کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا، اور اگر کرے گا تو وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔
۷۳
لَاسِیَّمَا قُضَاتُنَا إِذْ قُیِّدُوْا
بِرَاجِحِ الْمَذْہَبِ حِیْنَ قُلِّدُوْا
خاص طور پر ہمارے زمانے کے قاضی، کیوں کہ وہ پابند کیے گئے ہیں راجح مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کے جب ان کو عہدہ سونپا گیا ہے۔
۷۴
وَتَمَّ مَانَظَمْتُہٗ فِيْ سِلْکْ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ خِتَامُ مِسْکْ
اور پورے ہوئے وہ مضامین جو میں لڑی میں پرورہا تھا، اور الحمد للہ مشک کی مہر ہے۔
ہم اس شرح کے آغاز میں علامہ قاسم ؒ کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں کہ:
۱۔ مرجوح قول کے مطابق فیصلہ کرنا یا فتویٰ دینا اجماع کے خلاف ہے۔
۲۔ اور راجح قول کے مقابلے میں مرجوح قول کالعدم ہے۔
۳۔ اور متضاد روایات میں کسی مرجح کے بغیر ترجیح دینا ممنوع ہے۔
۴۔ اور جوشخص بس اتنی بات پر اکتفا کرتا ہے کہ اس کا فتویٰ یا اس کا عمل کسی بھی قول یا وجہ کے مطابق ہو جائے، اور مختلف اقوال و وجوہ میں سے (ترجیح میں غور وفکر کیے بغیر) جس قول پر یا جس وجہ پر چاہتا ہے عمل کرتا ہے وہ یقینا نا دان ہے، اور خرقِ اجماع کرتا ہے۔ (علامہ قاسم کی باتوں کا خلاصہ پوراہوا۔)
اور پہلے وہیں ہم اسی طرح کی بات علامہ ابنِ حجر ؒ کے فتاویٰ کے حوالے سے بھی بیان کر چکے ہیں۔