پھر علامہ قاسم نے فرمایا ہے کہ ہمارے علاقے میں وہ الفاظ جوبیوی کو حرام کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ الطلاق یلزمني (مجھ پر طلاق لازم ہو)۔
۲۔ الحرام یلزمني (مجھ پر حرام لازم ہو)۔
۳۔ علي الطلاق (مجھ پر طلاق ہو)۔
۴۔ علي الحرام (مجھ پر حرام ہے)۔
۱۲۔ باپ کا یہ دعوی کرنا کہ میںنے اپنی لڑکی کو جہیز کا مالک نہیں بنایا۔فقہا نے اس مسئلے کا مدار بھی عرف پر رکھا ہے، حالاںکہ قاعدہ یہ ہے کہ ’’مالک بنا نے نہ بنا نے کے سلسلے میں مالک بنانے والے کا قول معتبر ہے۔‘‘
۱۳۔ آدھے مہر کے سلسلے میں عورت کی یہ بات تسلیم کرنا، حالاںکہ منکرکی بات مانی جاتی ہے۔
۱۴۔ فقہا کا یہ فرمانا کہ ہمارے زمانے میں ضرورت اور عمومِ بلوی کی وجہ سے مزار عت مساقات اور وقف میں صاحبین کا قول مختار ہے۔
۱۵۔ امام محمد ؒ کا یہ ارشاد کہ اگر شفیع ایک ماہ تک فروخت شدہ جائیدات کے مالک بننے کی کاروائی نہ کرے تو اس کا شفعہ کا حق ختم ہو جاتا ہے۔ امام محمد ؒ نے یہ بات مشتری کے ضرر کو دور کرنے کے لیے کہی ہے۔
۱۶۔ اور اسی قبیل سے حسن بن زیاد ؒ کی یہ روایت ہے کہ آزاد، عاقل، بالغ عورت اگر اپنا نکاح غیرِ کفو میں کرلے تو نکاح درست نہیں ہوتا۔
۱۷۔ اور اسی قبیل سے متاخرین کا ضرورت کی بناپر طینِ شارع (راستے کی کیچڑ) کو نظر انداز کرنے کا فتوی ہے۔
۱۸۔ اور بیع بالوفا 1 کے جواز کا فتویٰ ہے۔
۱۹۔ استصناع (آرڈر دے کر کوئی چیز بنوانے) کے جوازکا فتویٰ (حالاںکہ وہ معدوم کی بیع ہے)۔
۲۰۔ پانی کی مقدار متعین کیے بغیر سقہ سے پانی پینے کے جواز کا فتویٰ۔
۲۱۔ ٹھر نے کی مدت اور استعمال ہونے والے پانی کی مقدار متعین کیے بغیر حمام 1 میں نہانے کے جواز کافتویٰ۔
۲۲۔ تولے بغیرگوندھا ہوا آٹا اور روٹی قرض لینے کے جواز کا فتوٰی۔
اور ان کے علاوہ دیگر وہ مسائل ہیں جن کا عرف پر مدار رکھا گیا ہے، اور اشباہ میں ایسے بہت سے مسائل ذکر کیے گئے ہیں، یہ سب وہ مسا ئل ہیں جوزمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدل گئے ہیں۔اور احکام کی تبدیلی کی بنیاد یا ضرورت ہے، یا عرف و