۲۔ حکومت میں مخبری کرنے والے کو ضامن بنانا، حالاں کہ یہ بات مذہب کے اس قاعدے کے خلاف ہے کہ ’’ضمان مباشر (خود کرنے والے) پر ہے، سبب بننے والے پر نہیں ہے‘‘ مگر متاخرین نے زمانہ بگڑجانے کی وجہ سے بطورِ جزر ساعی (مخبری کرنے والے) کے ضمان کا فتویٰ دیا۔ بلکہ فتنے 1 (خانہ جنگی) کے زمانہ میں تو اس کے قتل کا فتوی دیا ہے۔
۳۔ اجیرِ مشترک (دھوبی، درزی وغیرہ) کو نقصان کا ضامن قرار دینا۔
۴۔ فقہا کا یہ فرمانا کہ اب اس زمانے میں وصی کے لیے یتیم کے مال سے مضاربت جائز نہیں۔
۵۔ متاخرین کا یہ فتوی ہے کہ یتیم اور وقف کی جائیداد غصب کرنے والے کوضامن بنایا جائے گا۔
۶۔ اور اسی قبیل سے یہ فتوی ہے کہ یتیم اوروقف کی جائیداد اگر مکانات ہوں تو ایک سال سے زیادہ اور صحرائی جائیداد ہوتو تین سال سے زائد مدت کے لیے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔حالاںکہ یہ دونوں باتیں اصل مذہب کے خلاف ہیں۔ نمبر ۵ میں اصل مذہب ضمان کا واجب نہ ہو نا ہے۔ اور نمبر ۶ میں اجارہ کے لیے کسی مدت کا عدمِ تعین ہے۔
۷۔ متاخرین کاقاضی کو اپنی معلومات کے مطابق فیصلہ کرنے سے روک دینا۔
۸۔ متاخرین کا یہ فتوی کہ شوہر اپنی بیوی کو دور منتقل نہیں کر سکتا، اگر چہ وہ بیوی کو اس کا پورا مہر معجل (نقد) دے چکا ہو، یہ فتوی فسادِ زمانہ کی وجہ سے ہے۔
۹۔ متاخرین کا یہ فتوی کہ شہادت کے بغیر شوہر کی یہ بات نہیں مانی جائے گی کہ اس نے بیوی کی طلاق کی قسم کھانے کے بعد انشاء اللہ کہہ لیا تھا، حالاں کہ یہ فتوی ظاہرِ روایت کے خلاف ہے، اور متاخرین نے اپنے فتوی کی وجہ زمانے کے بگاڑ کو قرار دیا ہے۔
۱۰۔ متاخرین کا یہ فتوی کہ صحبت کے ہو جانے کے بعد عورت کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی کہ اس نے اپنا وہ مہر وصول نہیں کیا جس کی تعجیل نکاح میں شرط تھی۔ حالاںکہ عورت مہر کی وصولی کی منکر ہے۔اور مذہب کا ضابطہ یہ ہے کہ منکر کی بات مانی جاتی ہے مگر رواج یہ ہے کہ عورت مہرِ معجل وصول کیے بغیر اپنا نفس سپرد نہیں کرتی۔
۱۱۔ اور اسی قبیل سے متاخرین کا یہ قول ہے کہ اگر شوہر کہے کہ کل حل علي حرام (ہر جائز چیز مجھ پر حرام ہے) تو بربنائے عرف اس کی بیوی کوطلاق ہو جائے گی۔ بلخ کے فقہا نے کہا ہے کہ امام محمد ؒ کایہ قول کہ ’’نیت کے بغیر طلاق نہ واقع ہوگی‘‘ ان کے علاقے کے عرف کی بنا پر تھا، اور ہمارے عرف میں لوگ اس قول سے بیوی کو حرام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، لہذا اسی پر محمول کیا جائے گا۔مشایخِ بلخ کی یہ بات علامہ قاسم ؒ نے نقل کی ہے، اور انھوں نے مختارات النوازل سے نقل کیا ہے کہ اسی پر فتوی ہے، کیوںکہ عرفِ میں عام استعمال یہی ہے۔