خلاصۃ المرام: اور ما حصل یہ ہے کہ اب عمل شارع کے کلام کے علاوہ میں مفہومِ مخالف کے معتبر ہونے پر ہے۔ کیوںکہ شارع کے کلام میں کسی چیز کا صراحتاً تذکرہ ہونے سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے کہ اس کا مفاد اس کے ماسوا سے حکم کی نفی ہی ہو، اس لیے کہ شارع کا کلام بلاغت کا مخزن ہے۔ پس شارع کی مراد کبھی کچھ اور ہوتی ہے۔ جیسے ارشاد باری:
{وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ} (النساء: ۲۳)
(’’تمہارے لیے حرام کی گئی ہیں تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو تمہاری گود (پرورش) میں ہیں‘‘)
اس آیت میں حجور کی قید کا فائدہ (بالاجماع) یہی ہے کہ عام طور پر بیوی کی سابق شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی پر ورش میں ہوتی ہے، (یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں ہے کہ اگر وہ لڑکی موجودہ شوہر کی پرورش میں نہ ہوتو اس سے نکاح جائز ہے) اور رہالوگوں کا کلام تو وہ اس خوبی سے خالی ہوتا ہے، لہٰذا ان کے کلام میں مفہومِ مخالف سے استدلال کیا جائے گا۔ کیوں کہ لوگوں میں متعارف یہی بات ہے، اور سیرِ کبیر کی شرح میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ ’’جوبات عرف سے ثابت ہوتی ہے وہ نص سے ثابت کی طرح ہوتی ہے‘‘ (الثابت بالعرف کالثا بت با لنص)، اور یہ قاعدہ فقہا کے اس قول سے ملتا جلتا ہے کہ معروف بات مشروط جیسی ہوتی ہے (المعروف کالمشروط)، اور اس صورت میں جوبات عرف سے ثابت ہووہ گویا ایسی ہے کہ قائل نے اس کی صراحت کردی ہے، اس لیے اس پر عمل کیا جائے گا (یعنی لوگوں کے محاورات میں لوگوں ہی کے عرف سے ثابت ہے کہ مفہومِ مخالف کا اعتبار کیا جائے گا)۔
اور روایاتِ فقہیہ کے مفہومِ مخالف کے بارے میں بھی یہی بات کہی جائے گی (کہ وہ معتبر ہے)، کیوں کہ علما کی ان کتابوں میں یہ عادت رہی ہے کہ وہ قیود وشروط وغیرہ یہ تنبیہ کرنے کے لیے ذکر کرتے ہیں کہ جہاں یہ قیدوشرط نہ پائی جائے وہ حکم سے خارج ہے، اور مسکوت کا حکم منطوق کے برخلاف ہے، اور یہ بات فقہا کے درمیان بلا نکیر شائع و ذائع ہے، اور اسی وجہ سے کوئی ایسا آدمی نہیں مل سکتا جس نے اس کے خلاف تصریح کی ہو۔
البتہ یہ بات اکثری ہے (کلی نہیں ہے)، جیسا کہ اس کو نقایہ کی شرح جامع الرموز میں قہستانی نے ہدایہ کی شرح نہایہ کی کتاب الحدود کی طرف منسوب کیا ہے، اور مستثنیات میں سے صاحبِ ہدایہ کایہ قول ہے کہ:
’’طہارت کی سننتیں دونوں ہاتھوں کا دھونا ان کو برتن میں ڈالنے سے پہلے ، جب وضو کرنے والا نیند سے بیدار ہو۔‘‘
مسئلہ مذکورہ میں نیند سے بیدار ہونے کی قید اتفاقی ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ سے برکت حاصل کرنے کے لیے یہ قید بڑھائی گئی ہے۔ کیوںکہ طہارت کی یہ سنت اکثر فقہا کے نزدیک نیند سے بیدارہونے والے اور پہلے سے بیدار سب کو عام ہے، اور ایک ضعیف قول یہ ہے کہ یہ قید احترازی ہے، پہلے سے بیدار آدمی کو نکالنے کے لیے ہے، اور شمس الائمہ