اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول ﷺ نے ھجر کے مجوسیوں کو نامہ بھیجا، جس میں ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر جومسلمان ہو جائے اس کا اسلام قبول کرلیا جائے، اور جومسلمان نہ ہو اس پر جزیہ مقرر کیا جائے، اور مجوسیوں کاذبیحہ نہ کھا یا جائے، نہ ان کی عورتوں سے نکاح کیا جائے۔ شمس الائمہ سرخسی ؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
’’گویا امام محمد ؒ نے رسول ﷺ کے مجوسیوں کی اس حکم کے ساتھ تخصیص فرمانے سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کی گنجائش ہے، کیوںکہ امام محمد ؒ نے اپنی کتاب کا مدار اس بات پر رکھا ہے کہ مفہومِ مخالف جحت ہے، اور اس کی وضاحت اس کی جگہ میں آئے گی ‘‘۔ (شرح سیر کبیر: ۱/۱۴۸)
پھر چار ابواب کے بعد باب ما یجب من طاعۃ الوالي میں امام محمد ؒ کے اس قول کی شرح میں کہ ’’اگر امیرِ لشکر کا منادی اعلان کرے کہ جوفوجی چارہ لینے جانا چاہتا ہے وہ فلاں شخص کے جھنڈے تلے (سر کرد گی میں) جائے تویہ بمنزلہ ممانعت ہے‘‘ سرخسی ؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
یعنی فوجیوں کو جھنڈے والے سے علیحدہ ہونے کی ممانعت کردی گئی ہے، اس کے ساتھ نکلنے کے بعد، اور ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ امام محمد ؒ نے اس کتاب کا مداراس پر رکھا ہے کہ مفہومِ مخالف حجت ہے اور ہمارے نزدیک ظاہر روایت یہ ہے کہ مفہوم مخالف حجت نہیں ہے۔، مفہومِ صفت اور مفہومِ شرط اس بارے میں یکساں ہیں۔ مگر امام محمد ؒ نے اس مقصد کو پیشِ نظر رکھا ہے جس کوعام لوگ ایسے موقع پر سمجھتے ہیں۔ کیوںکہ فوجی عام طورسے علوم کے حقائق سے ناآشنا ہوتے ہیں، اور ان کے امیر نے اس اعلان کے ذریعہ فوجیوں کو باہر جانے سے روک دیا ہے، صرف مخصوص آدمی کے جھنڈے تلے جانے کی اجازت دی ہے، اس لیے امام محمد ؒ نے اس ممانعت کو جوامیر کے کلام کی دلالت سے مفہوم ہوتی ہے مصرح نہی کی طرح قرار دیا ہے۔‘‘ (شرح سیرِ کبیر ج ۱، ص ۱۷۷)
علامہ شامی کی وضاحت: اور سرخسی ؒ کے کلام کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ظاہرِ روایت میں مفہومِ مخالف حجت نہیں ہے، یہاں تک کہ لوگوں کے کلام میں بھی۔ کیوں کہ امام محمد ؒ نے اس باب میں امیر کا جو کلام ذکر کیا ہے وہ کلام الناس ہے، شارع کا کلام نہیں ہے، اور یہ بات اس قول کے موافق ہے جو اشباہ کے حوالے سے گزر چکی ہے، اور ظاہر یہ ہے کہ کلام الناس میں مفہومِ مخالف کے حجت ہونے کا قول متاخرین کا ہے، جیسا کہ تحریر کی شرح کی پہلی ذکر کی ہوئی عبارت سے مفہوم ہوتا ہے، اور متاخرین کا مستند اس بارے میں شاید وہ ہے جس کو ہم ابھی
سیرِ کبیر کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں، اس لیے کہ یہ کتاب ظاہرِ روایت کی چھ کتابوں میں سے ہے، بلکہ وہ ان میں سب سے آخری تصنیف ہے۔ اس لیے عمل اس پر ہوگا جیسا کہ ہم پہلے یہ بات اشعار میں بیان کر چکے ہیں۔