ساتویں وجہ: یہ ہے کہ ایک قول استحسان ہو اور دوسرا قیاس ، کیوںکہ پہلے یہ بات آچکی ہے کہ استحسان ارجح ہے، مگر چند مسائل میں۔
آٹھویں وجہ: یہ ہے کہ ایک قول وقف کے حق میں زیادہ مفید ہو۔ علما نے حاوی قدسی وغیرہ کتابوں میں اس وجہ ترجیح کی صراحت کی ہے کہ جن مسائل میں علما کا اختلاف ہے ان میں فتوی اس قول پر دیا جائے گا جس میں وقف کا زیادہ نفع ہو۔
نویں وجہ: یہ ہے کہ ان میں سے ایک قول زمانے کے لیے زیا دہ مناسب ہے، کیوں کہ جو قول لوگوں کے عرف کے موافق ہے، یا اس میں لوگوں کے لیے زیادہ آسانی ہے وہ زیادہ قابل اعتماد ہے اور اسی وجہ سے علما نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا ہے۔
۱۔ گواہوں کا تزکیہ ضروری ہونے کے مسئلے میں، اور ظاہری عدالت پر فیصلہ نہ کر نے کے بارے میں، زمانے کے احوال بدل جانے کی وجہ سے، کیوں کہ امام اعظم ؒ اس قرن میں تھے جس کے لیے رسول اﷲ ﷺ نے بہتری کی گواہی دی ہے، اور صاحبین کازمانہ اس سے مختلف تھا، کیوںکہ ان کے زمانے میں لوگوں میں جھوٹ پھیل چکاتھا، اس لیے ان کے زمانے میں گواہوں کا تز کیہ ضروری ہوگیا تھا۔
۲۔ اسی طرح علما نے تعلیم وغیرہ پراجارہ جائز نہ ہونے کے سلسلے میں ہمارے تینوں ائمہ کے قول سے عدول کیا ہے۔ کیوںکہ زمانہ بدل گیا، اور جوازکے فتوی کی ضرورت پیش آئی۔ جس کی تفصیل گزرچکی ہے۔
دسویں وجہ: یہ ہے کہ ایک قول کی دلیل زیادہ واضح اور خوب ظاہر ہو۔ کیوںکہ پہلے یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ دلیل کی قوت کی وجہ سے بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا جہاں دوتصحیحیں پائی جاتی ہوں اوروہ شخص جودلیل میں غور وفکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، دیکھے کہ ان میں سے ایک قول کی دلیل زیادہ قوی ہے تو اس پر عمل کر نا زیادہ بہتر ہے۔