دوسری وجہ: یہ ہے کہ ایک قول کی لفظِ فتوی سے تصحیح کی گئی ہو اور دوسرے قول کی کسی اور لفظ سے جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
تیسری وجہ: یہ ہے کہ تصحیح شدہ دو قولوں میں سے ایک قول متون میں ہو، اور دوسراقول متون کے علاوہ دیگر کتابوں میں، کیوںکہ کسی بھی قول کی تصحیح نہ ہونے کی صورت میں متن والے قول کو مقدم کیا جاتا ہے، اس لیے کہ متون نقلِ مذہب کے لیے تصنیف کیے گئے ہیں۔ یہ مضمون پہلے گزر چکا ہے۔پس اس صورت میں بھی یہی حکم ہوگا جب دونوں تصحیحیں متعارض ہوں۔ چنانچہ بحر باب قضاء الفوائت (۲/۸۶) میں ہے کہ ’’تصحیح اورفتوی میں اختلاف ہوگیا ہے، اور اس قول پر جو متون کے موافق ہے عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘
چوتھی وجہ: یہ ہے کہ ان میں سے ایک امام اعظم کا قول ہو اور دوسرا آپ کے کسی شاگرد کا، کیوںکہ کسی بھی قول کی تصحیح نہ ہونے کی صورت میں امام صاحب کا قول مقدم ہوتا ہے ۔ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ پس تصحیح کے بعد یہی حکم ہوگا۔
پانچویں وجہ: یہ ہے کہ ایک قول ظاہرِ روایت ہو تو اس کو دوسرے قول پر مقدم کیا جائے گا۔ بحر: کتاب الرضاع (۳/۲۲۲) میں ہے کہ جب فتوی مختلف ہوتو ظاہرِ روایت کو ترجیح ہوگی، اور باب المصرف (۲/۲۵۰) میں ہے کہ جب تصحیح میں اختلاف ہو تو ظاہرِ روایت کی تفتیش کرنا اور اس کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔ ‘‘
چھٹی وجہ: یہ ہے کہ تصحیح شدہ دو قولوں میں سے ایک کے قائل تمام بڑے مشائخ ہوں، کیوںکہ اشباہ کی شرح بیری میںہے کہ مشائخ سے جوطے شدہ بات مروی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے میں اختلاف ہوتو اس قول کا اعتبار ہوگا جس کے قائل اکثر حضرات ہیں، اور اس طرح کی بات ہم پہلے حاوی قدسی کے حوالے سے بھی بیان کر آئے ہیں۔