تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
کر کے اب اس میں دوسرے قصے داخل کر رہا ہوں۔ یہ ہے ہمارے پیر و مرشد مولانا رومی کا طرزِ بیان۔ دیکھیے یہ ہمارے بچپن کے پیرو مرشد ہیں، میں بالغ بھی نہیں ہوا تھا جب ہی سے مثنوی مولانا روم دیکھ رہاہوں، وہ اثر اور فیضان ان کا آرہا ہے تو میں کیسے ترتیب سے بیان کرسکتا ہوں۔ مثنوی میں ایک قصہ میں دوسرا، دوسرے میں تیسرا اور پہلا قصہ آخر میں پچاس ورق کے بعد بیان کیا ہے۔ لہٰذا اب حضرت نصوح کا واقعہ سنیے، جو ایک گناہ گار زندگی گزار رہے تھے۔ بڑے خوبصورت تھے، اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی۔ آواز بعضوں کی نرم ہوتی ہے۔ ہوتے مرد ہیں اور بہت وزنی بھی، لیکن آواز بالکل ایسی جیسے کوئی ٹیڈی بول رہی ہو۔ ایک صاحب میرےیہاں ہیں انہوں نے جب ٹیلیفون اُٹھایا اور کہا ہیلو تو اس نے کہا کہ بیٹی اپنے ابو کو بلاؤ حالاں کہ وہ خان ہے اور بہت تگڑا خان ہے۔ اس نے کہا میں بیٹی نہیں ہوں میں تو بیٹا ہوں۔ آواز ذرا نرم سی ہے۔ تو اس کی آواز عورتوں کی سی تھی اور گال پر بال با لکل نہیں آئے تھے۔ گال فارغ البال ، پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ بس اس نے شہزادیوں اور بادشاہ کی بیویوں کو نہلانے دھلانے اور مالش کرنے کی نوکری کرلی۔ برقع اوڑھا کرتا تھا۔ اس میں ذرا بھی ضعف اور کمزوری نہیں تھی۔ لہٰذا تمام عورتیں جتنی بیگمات کو نہلاتی دھلاتی تھیں سب سے نمبر ون پاس ہوگیا کیوں کہ یہ مرد تھا لہٰذایہ زیادہ طاقت اور زیادہ قوت اور ساتھ ساتھ اندر کی شہوت کے سبب ایسی مالش کرتا تھا کہ بیگمات نے سب خواتین نوکرانیوں سے کہہ دیا تھا کہ بیبیو تم مالش مت کرو۔ یہ جو بڑی بی بی آئی ہے بس ہم اسی سے مالش کروائیں گے۔ جنگل وہیں قریب تھا، بیگمات کی مالش کرنے کے بعد اس جنگل میں جا کر رویا کرتا تھا کہ اے خدا! ایک دن موت آئے گی پھر آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ادھر توبہ بھی کرتا اور ادھر مالش کا کام کر کے اپنے نفس کو خوب مزہ لینے کا موقع دیتا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اس کا نفس اتنا کافر یعنی اس قدر بد معاش اور خبیث ہوچکا تھا کہ ادھر توبہ کر کے آتا اور ادھر پھر وہی کام شروع کر دیتا، ہزاروں بار اس نے توبہ توڑ دی لیکن ایک دن اﷲ تعالیٰ کے جذب کا وقت آگیا۔ دیکھیے جب جذب کا وقت آتا ہے تو اس کے راستے خود بخود کھلنے لگتے ہیں ؎سُن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں