تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
کرادیا میں ایسے اﷲ کو کیسے ناراض کروں؟ اس موقع پر میرے شیخ مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ مثنوی کا ایک شعر مست ہو کر پڑھا کرتے تھے اور جس انداز سے پڑھتے تھے میں اسی انداز سے آپ کے سامنے پڑھوں گا۔ شیخ کے پڑھنے کا انداز بھی شانِ جذب رکھتا تھا اور شعر بھی شانِ جذب کا ہے۔ جب چنگ بجانے والا ایک فاسق توبہ کر کے ولی اﷲ ہوگیا اس وقت حضرت رومی نے یہ شعر پیش کیا ہے ؎پیر چنگی کے بود خاصِ خُدا سنیے جب حضرت پڑھتے تھے تو اس طرح سے ہاتھ پھیلا لیتے تھے ؎پیر چنگی کے بود خاصِ خُدا یہ چنگ بجانے والا کب خُدا کا خاص بندہ ہو سکتا تھا ؎حبذا اے جذب پنہاں حبذا اے خدا! تیرے جذب کی صفت کی کروڑہاکروڑہا تعریف کہ آپ نے پوشیدہ طور پر اس کی روح کو جذب کیا ۔ جب ہی تو اس نے قبرستان میں آپ کو یاد کیا ورنہ آپ کو کہاں یاد کرسکتا تھا۔یہ شعر میرے شیخ بڑے مست ہوکر پڑھتے تھے۔ کیسے پڑھتے تھے پھر سنیے ؎پیر چنگی کے بود خاصِ خُدا حبذا اے جذب پنہاں حبذا سارنگی بجانے والا کب خدا کا خاص ولی ہوسکتا تھا لیکن اے خدا! بے شمار تعریفیں ہوں تیری صفتِ جذب کی، عجیب شان ہے تیری صفتِ جذب کی کہ جس نے پوشیدہ طور پر اس کو آپ تک پہنچایا۔ جس کو تو چاہے تو سو برس کے کافر کو جذب کر کے فخر اولیاء بنا سکتا ہے ؎جوش میں آئے جو دریا رحم کا گبرِ صد سالہ ہو فخر اولیاء اگر خداارادہ کر لے اور اپنی رحمت کا دریا بہادے تو سو برس کا کافر خالی ولی ہی نہیں فخر اولیاء ہوسکتا ہے۔